اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے کہا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل پر دباؤ ڈالنے سے متعلق کوئی متفقہ موقف اپنانے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے آج تک کھوکھلے وعدوں، بیانات اور خواہشات کے اظہار کے سوا کچھ نہیں کیا۔ جمعرات کے روز مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا کہ عرب قوم نے حکمرانوں سے ہمشیہ یہ مطالبہ جاری رکھا کہ وہ اسرائیل کے بارے میں متفقہ طور پر جرات مندانہ موقف اختیار کریں اور بیانات کے اجراء تک خود کو محدود رکھنے کے بجائے فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کریں۔ فوزی برھوم نے کہا کہ عرب ممالک کا اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے یکساں موقف اپنائیں، اسرائیل کےساتھ قائم سفارتی تعلقات ختم کرکے عرب ملکوں میں تعینات اسرائیلی سفیروں کو نکال باہر کریں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے قابض ریاست سے ہر نوعیت کا تعاون ختم کریں۔ جب تک عرب ممالک متحد ہو کراسرائیل کے بارے میں اپنے وسائل کو مجتمع نہیں کرتے صہیونی دہشت گردی اور توسیع پسندی کا سلسلہ بدستور قائم رہے گا۔ ترجمان نے کہا کہ اسرائیل غزہ اور فلسطین میں ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہو رہا ہے ایسے میں تمام عرب ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو جرائم سے باز رکھنے کے لیے اس کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کریں اور ان پرعمل درآمد کے لیے مقدمات کی پیروی کریں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ القدس صرف فلسطینی عوام کی ملکیت اور مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری عرب قوم کی ملکیت اور عرب دنیا کا مشترکہ ثقافتی مرکز ہے، جس کے تحفظ کے لیے تمام عرب ملکوں کو اپنے ذمہ فرائض ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ فوزی برھوم نے کہا کہ حماس امن بات چیت کی مخالف نہیں بشرطیکہ یہ امن بات چیت فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو اور اس سے اسرائیلی تسلط کے خاتمے کی راہ ہموار ہوسکے، تاہم عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ امن باچیت اور امن عمل کے اقدامات سے صرف اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔