مسلم دنیا کی نمائندہ تنظیم”اسلام تعاون تظیم”( او آئی سی) نے فلسطینی جنگ اور محاصرہ زدہ شہرغزہ کی پٹی میں نئے تعلیمی اداروں اور اسکولوں کی تعمیر کے لیے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق "او آئی سی” کے ذیلی ادارہ برائے انسانی امور کی جانب سے جنوری کے مہینے کی فلسطین کے بارے میں جاری رپورٹ میں محصور شہر میں شہریوں کی معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور صحت سمیت تمام دیگر شعبوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں غزہ کی پٹی میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کا ایک تفصیلی سروے کر کے وہاں کے دگرگوں تعلیمی حالات،اسکولوں کی عمارتوں سے محروم طلباء و طالبات اور معاشی ناکہ بندی کے باعث کُتب، کاپیوں اوراسٹیشنری سے محروم طلباء وطالبات کی حالات زار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2008ء کے آخرمیں اسرائیل کے غزہ کی پٹی پر”لیڈ کاسٹ” نامی آپریشن اور وحشیانہ جنگ کے دوران تباہ ہونے والےاسکولوں میں سے بیشتر تاحال تشنہ تعمیر ہیں۔ مقامی حکومت کےپاس وسائل کی کمیابی اورغیرسرکاری فلاحی اداروں کو درپیش مالی اور معاشی مشکلات کے باعث بیشتر تعلیمی ادارے ویران ہیں۔ خاص طور پر وہ تمام علاقے جہاں بری طرح تباہی اور بربادی ہو چکی ہےوہاں فلسطینیوں کے بچوں کے لیے اسکولوں کا کوئی انتظام نہیں۔ اسکولوں کی چھت اور تحفظ کی کوئی صورت نہ ہونے کے باعث لوگ اپنے بچوں کو گھروں میں روکے ہوئے ہیں۔ بعض مقامات پر اسکولوں کے ڈھانچوں کو گرانے کے بعد ان کے ملبے پر بچوں کی کلاسیں ہوتی ہیں لیکن جب شدید سردی، گرمی یا بارش ہوتی ہے تو بچوں کوچھٹی دے دی جاتی ہے۔ یوں غزہ کی پٹی میں تعلیمی اداروں کا کوئی منظم اور مضبوط سسٹم نہیں ہے۔
او آئی سی کی اس رپورٹ میں غزہ کی پٹی میں تعلیمی اداروں کی تباہ کاری کا براہ راست ملزم اسرائیل کو قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے مسلسل حملوں کے نتیجے میں لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں میں بھیجنے سےخوف زدہ ہیں کیونکہ شہر میں ہر وقت جنگ اور خوف کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت تعمیرات کے لیے مغربی کنارے کی غزہ کو ملانے والی راہداریوں سے آنے والے سامان کو روک لیتی ہے جس کے نتیجے میں نئے مدارس کی تعمیرکی جو معمولی سطح پر کوششیں کی جاتی ہیں وہ بھی ناکام بنا دی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 119 مدارس اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے پناہ گزین”اونروا” کے زیرکنٹرول ہیں جبکہ ان میں بھی تعلیمی سہولیات کا فقدان رہتا ہے۔ آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافے کے نتیجے میں حکومت کو سالانہ بیس سے پچیس اسکول قائم کرنا ہوتے ہیں لیکن وسائل کی کمی اورمعاشی ناکہ بندی کےاسکولوں کی تعمیر مکمل طور پر تعطل کا شکار ہے۔
اوآئی سی نے اپنی رپورٹ میں غزہ کی تعلیمی تباہی کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور اسلامی دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے محصور بچوں کے لیے اسکولوں کی تعمیر میں دل کھول کر مدد دیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین