اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے قیام کو چوبیس برس بیت چکے ہیں۔ فلسطینیوں کی محبوب تنظیم لگ بھگ چوتھائی صدی سے جہاد اور مزاحمت کے راستے پر گامزن ہے۔
فلسطینیوں پر اسرائیلی غارت گریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بالخصوص فلسطینی بچے بھی صہیونی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں تاہم اس سارے عرصے میں حماس ہی وہ نام ہے جس نے صہیونی دشمن کو اپنے مزموم عزائم پر عمل کرنے سے باز رکھا ہوا ہے۔
دشمن کے دانٹ کٹھے کرنے کا فریضہ حماس بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔ پانچ سال سے اسرائیلی محاصرے میں گھرے اہل غزہ کا خیال ہے کہ یہ اسرائیل کے خلاف جہاد اور مزاحمتی کارروائیاں ہی ہیں جس کی وجہ سے غزہ آج تک تباہ ہونے سے بچا ہوا ہے۔ آج غزہ کے مکین حماس اور جہادی کارروائیوں کو غزہ کا حفاظتی حصار گردانتے ہیں۔
حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے سیاست اور حکومت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا محاذ کھولنا کس قدر ضروری ہے اس کا اندازہ غزہ کے شہریوں کی ان آراء سے کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے نمائندے کے ساتھ گفتگو میں پیش کیں۔
طاقت کی زبان
’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے غزہ کے شہری ابو یاسر نے فلسطینی شہریوں کے مسلسل قتل پر حماس سے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’دشمن صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، بستروں میں محو خواب چھوٹے بچوں کا قتل ایسا جرم نہیں جسے معاف کر دیا جائے‘‘ انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم اسرائیل کے خلاف ایسی مزاحمت تحریک پر جمع ہو رہی ہے جس میں اس کے جرائم کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔
مزاحمت ہی ہمارا حفاظتی حصار
غزہ کی یونیورسٹی کے طلبہ بھی اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف روز افزوں حملوں کے باوجود فلسطین میں حماس کی طاقت اور مزاحمتی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم امجد کا کہنا تھا ’’حماس اور مزاحمت غزہ کے حفاظتی حصار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم اس کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم قوم اور ملک کی آزادی کے لیے حماس کی بھرپور تائید کرتے ہیں‘‘
مزاحمت ہمارا اوڑھنا بچھونا
’’تنظیم آزادی فلسطین‘‘ کی سکیورٹی فورسز میں کام کرنے والے سابق اہلکار عمر رسیدہ ابو نبیل سے جب حماس کی مزاحمتی کارروائیوں کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’مزاحمت کیا ہے ! یہ میرا بیٹا، میرا پوتا، بھتیجا اور ہمسایہ ہم سب مزاحمتی کارروائیوں کے اہل ہیں، ہم سب مزاحمت کرنے والے ہیں اور اس کی مدد کرنے والے ہیں، حماس کے مزاحمت کار مریخ سے نہیں آتے انہیں افراد ہم ہی فراہم کرتے ہیں‘‘
غزہ کے باسیوں کی ان آراء سے فلسطینیوں میں حماس اور اس کے مزاحمتی پروگرام کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔