"خالد مشعل فلسطین کی منظم مذہبی سیاسی اور عسکری تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” کے سیاسی شعبے کے صدر ہیں۔ ان دنوں حماس اور فلسطین کی دوسری بڑی سیاسی جماعت الفتح کے درمیان مصالحت کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
دونوں جماعتوں نےمصر کی ثالثی کے تحت ایک سیاسی فریم ورک پر اتفاق کر لیا ہے۔ قاہرہ میں مفاہمتی مذاکرات کے دوران انہوں نےملک کی موجودہ صورت حال اور مفاہمت کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو دیا ہے۔
اپنے اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ فلسطین میں فرد واحد کی اجارہ داری اور حکمرانی کا دور لد چکا ہے۔ اب سلطانی جمہور کا زمانہ ہے اور تمام فلسطینی دھڑے مل کرقومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کی تنظیم آزادی فلسطین میں شمولیت سے تنظیم کو قومی دھارے میں لانے میں مدد ملے گی اور ہم پی ایل او کا ایک نیا سیاسی پروگرام وضع کریں گے۔ خالد مشعل کا کہنا ہے کہ ہم مفاہمت کی کامیابی کےلیے پرامید ہیں۔ امید اسی کو ہوتی ہےجو کام کرتا ہے اور جو انتظار کرتے اور تماشا دیکھتے ہیں انہیں کوئی امید بھی نہیں ہوتی۔ حماس فلسطینیوں کے درمیان اتحاد کے لیے سب سے زیادہ کوششیں کررہی ہے”۔
ان کا یہ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے
سوال: مفاہمت کا معاملہ طے کرنے پر اس وقت حماس اورفتح دونوں کو مبارکباد پیش کی جا رہی ہے، حالانکہ یہ دونوں جماعتیں کوئی قومی حکومت نہیں بنا سکیں ہیں اور دونوں کے پاس اپنی اپنی حکومتیں ہیں۔ ایسے میں آپ کےخیال میں یہ تہنیتی پیغامات درست ہیں؟
خالد مشعل:۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ تہنیتی پیغامات ضروری ہیں کیونکہ کامیابی کے امکانات بہت ہیں۔ میں پراُمید ہوں اور پرامید وہی ہوتا ہے جو کچھ کرتا ہے جو صرف انتظار کرتا ہے اسے کوئی امید بھی نہیں ہوتی۔ اپنی قوم اور مسئلہ فلسطین کے لیے میری تمام جماعتوں کو اس قومی پروگرام کی کامیاب میں بھرپور شرکت کی دعوت ہے۔ اب ہمیں انتشار کا باب بند کر دینا چاہیے،کیونکہ اس نے ہمیں بہت کمزور کر دیا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہم جلد قومی اتحاد کی منزل حاصل کر لیں گے۔
سوال۔۔ حماس اور فتح کےدرمیان مفاہمتی اقدام کے بعد فوری طور پر ذہن مغربی کنارے میں سیاسی اسیران کے معاملے کی جانب جاتا ہے۔ آپ کیا سجھتے ہیں کہ یہ معاملہ کب تک حل ہو پائے گا؟
خالد مشعل:۔۔ میں نے برادر محمودعباس (ابو مازن) سے ملاقات میں اس معاملے کو جلد ازجلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مجھے توقع ہے یہ معاملہ دنوں کے اندر حل ہو جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے "سیاسی آزادی” کے نام پر ایک کمیٹی بھی قائم کر دی ہے، جس کی نگرانی براہ راست مصری حکومت کرے گی۔ مصری حکومت کا فلسطینیوں کے مابین مفاہمت کرانے میں ویسے بھی نہایت مثبت کردار رہا ہے۔ اس پر ہم مصر کے شکر گذارہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ مصر حماس اور فتح اور دیگر دھڑوں کے درمیان پائےجانے والےاختلافات کو دور کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔
سوال:۔ حماس اور فتح کے درمیان حالیہ مفاہمت کا اعلان اور اس پر خوش فہمی کی اتنی کیا ضرورت ہے جبکہ ماضی کے تجربات بھی ہمارے سامنے ہیں، کیونکہ مفاہمت اور قومی اتحاد کے معاملے میں فتح کا کردار کوئی قابل رشک نہیں رہا ہے۔پھر یہ خوش فہمی کیوں ؟
خالد مشعل:۔۔ ہماری جماعت ہردورمیں تمام فلسطینی جماعتوں کے درمیان حقائق پر مبنی اور مثبت بات چیت پرزور دیتی رہی ہے۔بہ حیثیت انسان بالخصوص ہم عربوں اور مسلمانوں میں تنقید اور امید کا عنصر بہت ہوتا ہے۔ مفاہمت کے باب میں سست روی اور ٹال مٹول جیسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ اسکے کچھ داخلی اور خارجی اسباب رہے ہیں۔ ہم نے اس مرتبہ ان داخلی اور خارجی اسباب کو راہ سے ہٹانے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس وقت بھی بعض غیرملکی ہاتھ فلسطینیوں کےدرمیان مفاہمت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ ان میں اسرائیل اور اس کے بعض حامی ممالک شامل ہیں۔
ان ملکوں کی جانب سے فلسطینی انتظامیہ کو یہ دھمکی دی گئی کہ اگر حماس کے ساتھ مصالحت کرو گے تو تمہاری امداد بند کر دی جائے گی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مفاہمت کی طرف بڑھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ ایک مشکل ترین مرحلہ تھا اور اب اہم بہت سی مشکلات کو راستے سے ہٹا چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ توقع اور امید ہے کہ اب کی بار مفاہمت کی کوششیں مثبت رنگ لائیں گی۔ اس وقت ایسے حالات اور عوامل پیدا ہو گئے جنہوں نے ہمیں مفاہمت کے لیے ماحول سازگار بنایا۔
سوال:۔ وہ کون سے عوامل تھے، جنہوں نے فلسطینیوں کے مابین مفاہمت کی راہ ہموار کی؟
خالد مشعل:۔۔۔ فطری طور پر ہم ان عوامل کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ وہ پہلا عنصر جس نے مفاہمت کے لیے ماحول سازگار بنایا وہ خود فلسطین کی داخلی صورت حال تھی۔ ہر شخص اور ہر جماعت انتشار اور بے اتفاقی سے سخت نالاں تھی۔ ہم اس انتشار کو ایک بوجھ خیال کرتے تھے۔ یہ بات ہم سب بخوبی جانتے تھے کہ موجودہ انتشار کی حالت دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے۔ دوسرا عنصر فلسطین کی داخلی سیاسی صورت حال تھی جو ہر اعتبار سے بند تھی۔ ہم سب سیاسی طور پر ایک بند گلی میں جا چکے تھے جس سے نکلنے کے لیے مفاہمت کےسوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس سیاسی تناؤ سے نکلنے کے لیے ہماری لیے فورا قوم کی طرف پلٹنا تھا اور یہ احساس حماس کے علاوہ فتح کی قیادت کو بھی تھا۔
ایک تیسراعنصر نے جس نے فلسطینیوں کو آپس میں ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کیا وہ عرب ممالک میں جاری بہار انقلاب ہے۔ عرب ملکوں میں آنے والی تبدیلی کی یہ لہر فلسطینیوں کے لیے حقیقی معنوں میں امید افزاء پیغام لے کر آئی۔ انقلاب کی اس تحریک کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین ایک مرتبہ پھر ابھر کرعرب ممالک کی خارجہ پالیسیوں کے ایجنڈے میں آ گیا۔ اس کے بعد عرب ممالک کے لیے بھی یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ فلسطین کی نمائندہ جماعتوں کے ساتھ معاملات کریں۔ اب معاملات کسی ایک جماعت کےساتھ کیے بھی نہیں جا سکتے تھے چنانچہ انہوں نے بھی اپنے تئیں مفاہمت کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ یوں یہ تین وہ بنیادی محرکات تھے جو فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کا ماحول سازگار بنانے میں کارگر ثابت ہوئے۔
سوال:تنظیم آزادی فلسطین(پی ایل او) میں حماس اور جہاد اسلامی کی شمولیت کی راہ ہموار ہونے پر بعض حلقوں میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس اس مسئلے کی کیسے وضاحت کریں گے؟
خالد مشعل:۔۔ اس وقت مسئلہ حماس اور اسلامی جہاد کا پی ایل او میں شمولیت کا نہیں بلکہ ہمیں مفاہمت کے اس پورے فریم ورک کو سامنے رکھناچاہیے، جو ہمارے اور دوسری جماعتوں کے درمیان طے پایا ہے۔
ہم نے جن اہم امور پر اتفاق کیا ان میں فلسطینی اتھارٹی کے تمام اداروں کے درمیان وحدت پیدا کرنا،انتشار کا حقیقی معنوں میں خاتمہ، نئے سرے سے سیاسی صف بندی، سیاسی، انتظامی اور سیکیورٹی نئے سرے سے تنظیم سازی ہمارے پیش نظر تھی۔ صاف ظاہر ہے مفاہمت کے ان تمام عنوانات میں تنظیم آزادی فلسطین کی نئی باڈی کی تشکیل اور اس میں تمام جماعتوں کی شمولیت بھی شامل تھی۔ اب نیشنل کونسل کے انتخابات کے ذریعے پی ایل او کی نئی باڈی،نئی ایگزیکٹو کمیٹی کا قیام اور نئے الیکشن کمیشن کا قیام ہمارے درمیان طے پانےوالے اس مفاہمتی فریم ورک کا حصہ تھا۔ اس وقت کی تنظیم آزادی فلسطین کی قیادت عبوری قیادت ہے۔ نیشنل کونسل کےانتخابات کے ذریعے تنظیم کی نئی باڈی کی تشکیل کرنی ابھی باقی ہے۔ یہ بات آج نہیں بلکہ سنہ 2005ء میں حماس اور فتح کے درمیان طے پا گئی تھی۔ اب 22دسمبرکو قاہرہ میں ابومازن کے ساتھ ہونے والے بات چیت میں بھی اس پر دوبارہ اتفاق کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں ہم نے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو اگلے ایک ماہ میں اپنا کام مکمل کریں گی۔ فروری میں ہم دوبارہ آپس میں ملیں گے تاکہ سیاسی فریم ورک کے ساتھ ساتھ تنظیم آزادی فلسطین کی نئی باڈی کی تشکیل کی جا سکے۔
سوال۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین میں حماس کی شمولیت گویا حماس کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟
خالد مشعل:۔۔اب تک فلسطین کے داخلی معاملات میں اسرائیل اور امریکا کی مداخلت رہی ہے۔ فلسطین کے قومی ادارے اپنی پوری آزادی اور خود مختاری کے ساتھ فیصلے نہیں کر سکے۔ اب دنیا کو اندازہ ہو چکا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل کیا ہے اور خطے میں میں دیرپا امن کیسے ممکن ہے۔
اس وقت تمام فلسطینی دھڑوں اور حماس کی توجہ ووٹ کی پرچی کے ذریعے تنظیم آزادی فلسطین اور قومی سیاسی اداروں کی داغ بیل ڈالنے پر مرکوز ہے۔ ابھی تنظیم آزادی پوری خود مختاری کےساتھ کام نہیں کر رہی ہے۔ حماس کی اس میں شمولیت کے بعد تنظیم آزادی کا سیاسی پرگرام نئے خطوط پر استوار کیا جائے گا۔ ہم سب مل کر صرف وہی پالیسی مرتب کریں گےجو صرف اور صرف فلسطینی قوم کے مفاد میں ہو گی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں کچھ وقت درکارہے لیکن حالات سازگار ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین میں حماس کی شمولیت اسے قومی دھارے میں لے آئے گی۔
سوال۔ اتنی جلد بازی میں مصالحت کا فیصلہ اور انتشار کا خاتمہ، کیا یہ حیرت انگیز نہیں؟
خالد مشعل:۔۔ تمام فلسطینی سیاسی دھڑوں کے مابین مصالحت وقت اور عارضی ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک قومی ضرورت ہے۔ فلسطینیوں کے درمیان موجود بے اتفاقی عارضی ہے جسے جلد ازجلد ختم کرنے پر بھی تمام جماعتوں کے مابین اتفاق رائے موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم سب نے مصر کو مفاہمت میں ثالثی کے لیے منتخب کیا تو ہم نے قاہرہ حکام کو یہ بتایا کہ ہمارے درمیان اختلافات صرف ایک مجبوری کا نتیجہ ہیں، یہ ہمارا کوئی فیصلہ نہیں ہے۔ ہم سب کی مشترکہ خواہش مفاہمت اور اتحاد ہے۔ اس اتحاد کی راہ میں کچھ بیرونی ہاتھ رکاوٹ ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ مفاہمت کا اعلان جلدبازی میں کیا گیا ہے، کیونکہ گذشتہ کئی سال سے فلسطینیوں کے درمیان قربت پیدا کرنےکی کوششیں جاری رہی ہیں۔ البتہ مفاہمتی مساعی میں مصر کی براہ راست مداخلت کے بعد حالات تیزی سے سازگار ہوتے گئے اور آج حماس اور فتح باہمی اختلافات بھلا باہم شیروشکر ہونے کو ہیں۔ لیکن اب بھی خدشات اور خطرات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔
سوال۔ مغربی کنارے میں حماس کے ساتھ زیادتیوں کے باوجود کیا آپ کی جماعت آئندہ سال مئی میں انتخابات کے لیے تیار ہے؟
خالد مشعل:۔۔یہ درست ہے کہ ہم نےقاہرہ ملاقاتوں میں آئندہ سال مئی میں انتخابات کے انعقاد پراتفاق کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہتا چلوں کہ انتخابات کامیاب بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں سیاسی سرگرمیوں کی آزادی کی ضرورت ہے۔اگر ہم انتخابات کا اعلان بھی کردیں اور ساتھ ہی کچھ جماعتوں پر پابندیاں لگائیں اورسیاسی رہنماؤں کو اٹھا کر غائب کر دیں تواس سے انتخابات کی راہ ہموار ہونے کے بجائےمسائل مزید گھمبیر ہوں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین میں قومی حکومت کا قیام مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی سطح پرانتخابات کے لیے فضاءساز گار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہمیں جلد ازجلد وہ تمام اقدامات کرنا ہوں گے جو فلسطین میں سیاسی ماحول سازگار بنائیں۔ ہمیں اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی سازشوں کوبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
سوال:۔۔قومی حکومت کا قیام کب تک ممکن ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ مغربی کنارے اورغزہ کی پٹی کی الگ الگ حکومتوں کی نگرانی میں انتخابات کرائے جائیں؟
خالد مشعل:۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں دو الگ الگ حکومتوں کا قائم رہنا اور قومی حکومت کا تشکیل نہ پانا انتشار کے تسلسل کی علامت ہو گا۔ ایسی صورت میں ہم انتخابات کی طرف نہیں جا سکتے۔ انتخابات کی کامیابی صرف قومی عبوری حکومت کے زیرسایہ ہی ممکن ہے۔ قومی حکومت کی تشکیل کے بعد انتخابات کے انعقاد کے بارے میں ہماری اور صدر محمود عباس کی رائے میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہم نے جنوری کے آخری ہفتے میں قومی حکومت کے لیے معاملات طے کرنے کا اعلان کیا ہے اور توقع ہے کہ فروری کے آغاز میں ہم قومی حکومت باقاعدہ تشکیل دینے کے قابل ہو جائیں گے۔
سوال:۔۔ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت میں علاقائی اورعالمی قوتوں اورعرب بہاریہ کا کیا کردار رہا ہے۔ مفاہمت کے بعد بننے والی قومی حکومت کے ساتھ مغرب کا معاملہ کیا ہو گا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
خالدمشعل:۔۔۔ جب ہم مغرب کی فلسطین کے بارے میں پالیسی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں لامحالہ اسرائیل کا ذکرکرنا پڑتا ہے۔ اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے مغرب اورامریکا کے فلسطینیوں کے بارے میں رویہ میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اسرائیل ہی کہ وجہ سے امریکا اور مغرب کی دوہری پالیسی کھل کر سامنے آتی ہے۔ جہاں تک عرب ممالک میں جاری عوامی تحریک کا تعلق ہے تو میں صرف یہ جانتا ہوں کہ یہ جمہوریت کا سونامی ہے۔ جس نے خطےمیں امریکا اور مغرب کے مفادات کو تل پٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکا اور مغرب کی پوری کوشش تھی کہ وہ عرب ممالک میں جاری عوامی انقلابی تحریکوں کو اپنے مخصوص راستے پر ڈال دیں لیکن عوام کی مرضی کے سامنےامریکیوں اور ان کے حواریوں کا بس نہیں چل سکا ہے۔
عرب ممالک میں جاری تبدیلی کی تحریکوں کے تناظرمیں امریکا بہرحال فلسطین کے مسئلے کو نظرانداز نہیں کر سکتا لیکن امریکیوں نے اپنی روایتی اسرائیل نوازی کا سلسلہ جاری رکھا اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کی پالیسی وہی چلی آ رہی ہے جو ماضی میں تھی۔
سوال:۔۔عرب ممالک میں عوامی انقلابات کے نتیجے میں دینی قوتوں کے منظرعام پرآنےپرآپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
خالدمشعل:۔۔۔ الحمدللہ۔۔۔ حماس اور پوری فلسطینی قوم عرب ممالک میں آنے والی مثبت اور جمہوری تبدیلی پر نہایت خوش ہے۔ مصر اور دیگرممالک میں دینی قوتوں بالخصوص اخوان المسلمون کی کامیابی کو ہم حماس کی فکر کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مصر،تیونس، مراکش اورلیبیا میں آنے والےانقلابات اور مذہبی جماعتوں کی کامیابیوں سے واضح ہوتا ہے کہ عرب اقوام سیکولر نظام سے نالاں ہیں۔ حماس ان تمام عرب ممالک کے ساتھ اپنے رابطے پہلے سے مضبوط کر رہی ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ خطے میں دینی قوتوں کی سیاسی برتری مسئلہ فلسطین کے حلکے لیے مدد گار اور ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہو گی۔ جس طرح عرب ممالک میں دینی جماعتوں کو بالادستی حاصل ہوئی ہے حماس فلسطین میں بھی اسی طرح کا فلسفہ اور طریقہ کار اپنانے کے لیے کوشاں ہے۔