فلسطین کی بیس کے لگ بھگ غیر سرکاری تنظیموں نے اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مشرقی وسطی کی چار رکنی ثالثی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر یہودی آبادکاری اور فلسطینی املاک کی انہدامی کاروائیاں روکنے کا دباؤ بڑھائے۔
ھیومن رائٹس واچ، اوکسفام سمیت دیگر تنظیموں کی جانب سے بتایا گیا کہ امسال فلسطینی گھروں کو گرانے کے صہیونی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح یہودی آبادکاری کے لیے تعمیرات میں تیزی کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں آباد انتہاء پسند یہودیوں کے فلسطینیوں پر حملے بھی بڑھ گئے ہیں۔
درجنوں این جی اوز نے اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس اور امریکا پر مشتمل گروپ چار سے مطالبہ وہ تنازع کے دونوں فریقوں کو عالمی قوانین کی پابندی یاد دلائے جس کے لیے اسے اسرائیل اور فلسطین سے علیحدہ علیحدہ میٹنگز کرنا ہونگی۔
این جی اوز کا کہنا تھا کہ اس سال کے آغاز سے اب تک اسرائیل 500 فلسطینی گھروں کو مسمار کر چکا ہے، درجنوں پانی کی کنویں اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیرات بھی گرا دی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق اس سال صرف مشرقی القدس سے ایک ہزار فلسطینی شہریوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ تعداد گزشتہ برس شہر بدر کیے گئے افراد کی تعداد سے دوگنا اور سنہ 2005ء سے اب تک کسی بھی سال کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ گھروں کو گرا کر شہر سے ہجرت پر مجبور کیے گئے افراد میں سے نصف بچے ہیں۔
ھیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطی کے ڈائریکٹر سارہ لیا وسٹن کا کہنا تھا گروپ چار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی توسیع اور فلسطینیوں کے گھروں کے انہدام سے متعلق اسرائیل سے بات کرے کہ اس کی یہ تمام کارروائیاں بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
شمالی افریقا اور مشرق وسطی میں عالمی تنظیم ’’العفو‘‘ کے ڈائریکٹر فلپ لوتھر کا کہنا تھا کہ وقت ا ٓگیا ہے کہ گروپ چار یہ سمجھ لے کہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کیے بغیر تنازع حل نہیں ہو سکتا۔