فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نےکہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کی جماعت الفتح کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے حماس کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے باعث ملک میں مفاہمت کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ مصالحت حسن نیت اورخلوص کا تقاضا کرتی ہے جبکہ ہم صرف زبانی کلامی دعوے کرتے ہیں۔ اگر ہمیں ملک میں حقیقی مفاہمت کا خواب پورا کرنا ہےتو ہمیں بیان بازی کے بجائے طے شدہ شرائط پرشیڈول کے مطابق عمل درامد کرنا ہو گا۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ اٹھارہ دسمبرکو حماس اور فتح کے درمیان ایک مرتبہ پھر ملاقات اور مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بیس تاریخ کو تمام فلسطینی جماعتوں کا اجلاس ہو گا اور22 دسمبرکو تنظیم آزادی فلسطین کی ازسرنوتنظیم سازی کے لیے مذاکرات ہوں اور پی ایل او کی نئی انتظامیہ کا اعلان کیا جائے گا۔
فلسطینی وزیراعظم نے مقبوضہ بیت المقدس میں جاری یہودی آباد کاری کی کارروائیوں، مسجد اقصیٰ کے خلاف سازشوں اور فلسطینیوں کی شہر بدری کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس کے حوالے سے تمام عالمی قوانین اور بین الاقوامی ضابطے بالائے طاق رکھتے ہوئے سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے مذاکرات نہیں بلکہ طاقت کا استعمال کرنا ہو گا۔ صہیونی دشمن نے مسلمانوں کا قبلہ اول ان سے طاقت کے ذریعے چھینا گیا، اب اس کی دوبارہ آزادی بھی طاقت ہی کا تقاضا کرتی ہے۔ انہوں نے عالم اسلام سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تمام ترقوت کو مجتمع کر کے قبلہ اول کو آزاد کرائیں۔
فرانس میں اقوام متحدہ کی تنظیم برائے سائنس وثقافت”یونیسکو” کے دفترپرفلسطینی پرچم لہرائے جانے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ھنیہ نے کہا کہ فلسطین کی آزادی اور خود مختاری کے لیے جس حد تک کوششیں کی جائیں گی حماس اور غزہ کی حکومت ان کوششوں کا خیر مقدم کرے گی، تاہم ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ فلسطینیوں کا مطالبہ صرف ایک ادارے میں فلسطینی ریاست کی منظوری نہیں بلکہ ایک آزادی اورمکمل خود مختار فلسطینی ریاست ہمارا مطالبہ ہے جس پرکسی دوسری قوم کا کوئی تسلط نہ ہو۔ تمام فلسطینی دیارغیر سے واپس اپنے وطن لائے جائیں اور غیرمنقسم بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالخلافہ قرار دیا جائے۔