مصر میں اسلام پسند جماعتوں اخوان المسلمون اور سلفیوں کی النور پارٹی کی پارلیمانی انتخابات میں اکثریتی سیٹیں حاصل کرنے پر اسرائیل سخت چراغ پا ہے۔ مصرمیں انتخابات کے پہلے مرحلے ہی سے اسرائیلی میڈیا،
صہیونی تھینک ٹینک اوراسرائیلی سیاست دان انتخابی نتائج پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
سرکاری سطح پر میڈیا میں آنے والی رپورٹس میں حکومتی حلقوں میں مصرمیں اخوان المسلمون کی کامیابی پر سخت بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ صہیونی حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہیں مصرمیں حسنی مبارک کے خلاف انقلاب برپا کرنے کے بعد دینی جماعتوں کی اتنی بڑی تعداد میں کامیابی کا امکان نہیں دکھائی دیتا تھا، لیکن پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی حکومتی اورعسکری حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ جس کے بعد وہ یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ مصر میں اسلامی سیاسی جماعتوں کی کامیابی فلسطین میں اسرائیل مخالف حماس کی سیاسی تقویت کا باعث بنیں گی اور یوں اسرائیل کوسخت مشکلات سے دوچارہونا پڑ سکتا ہے۔
کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا اختتام
اسرائیل کے مشرق وسطیٰ امور کے ماہر اور سیاسی تجزیہ نگار ڈیوڈ بوکی کا کہنا ہے کہ مصر میں دینی جماعتوں کے اقتدارمیں آنا نہایت خطرناک ہے۔
اسرائیلی ٹی وی 7 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مسٹرڈیوڈ بوکی کا کہنا تھا کہ مصر میں اخوان المسلمون کی کامیابی لبرل جماعتوں کی بدترین شکست ہے اور اخوان کی یہ کامیابی اسرائیل اور مصر کے درمیان طے پائے امن معاہدے کیمپ ڈیوڈ کے خاتمے پر منتج ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصرکی تمام اسلامی جماعتوں کے بنیادی نظریات میں اسرائیل کی تباہی ہے۔ اخوان المسلمون کی اور سلفی جماعت النور کی کامیابیوں نے اسرائیل کو ایک نئے پہلو سے سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج کو بھی اپنا نیا لائٓحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔
ایک سوال کےجواب میں صہیونی تجزیہ نگارنے لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خاتمے میں مغربی ممالک کی مدد پرکڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا نے لیبیا میں اخوان المسلمون اور القاعدہ کی حکومت کی راہ ہموار کی اب یہ لوگ مراکش، تیونس، مصر اور دیگرعرب ملکوں میں تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔
توقع سےزیادہ خطرناک
ادھر اسرائیل کے ایک کثیرالاشاعت عبرانی اخبار”یدیعوت احرونوت” نے فوج کے ایک سینیئر عہدیدارکا بیان نقل کیا ہے۔ فوجی عہدیدار نے مصرکے پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے کےنتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں”توقع سے زیادہ خطرناک” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ مصرمیں حسنی مبارک کے دورے کے خاتمے کے بعد مذہبی جماعتوں کو فروغ حاصل ہونے کا امکان تھا، لیکن پہلے مرحلے میں پینسٹھ سے سترفیصد نشستیں حاصل کرلینا ایک ناقابل یقین امر ہے۔
صہیونی فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس سال جنوری میں جب سابق صدرحسنی مبارک کےخلاف انقلاب کی تحریک اٹھی تو میدان تحریر میں جمع ہونے والے شہری تمام طبقات سے تعلق رکھتے تھے لیکن بعد میں اخوان المسلمون اور دیگرمذہبی جماعتوں نے انقلابی تحریک کو ہائی جیک کرلیا۔ اسرائیل اس پرخبردار کرتا رہا لیکن مغرب نے انقلابی تحریک کی زمام کاراسلام پسند جماعتوں بالخصوص اخوان المسلمون کے ہاتھ سے نہ لی۔ اس کا نتیجہ آج یہ سامنے آیا ہے کہ اخوان المسلمون حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔