حماس کے ساتھ مفاہمتی معاہدے کے باوجود فتح کے زیر انتظام فلسطینی اتھارٹی نے حماس کارکنوں کے خلاف پکڑ دھکڑ مہم شروع کر رکھی ہے۔ اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز نے مغربی کنارے کے ضلع الخلیل اور جنین سے حماس کے مزید چار کارکنوں کو اغوا کر لیا ہے۔
ضلع الخلیل میں اتھارٹی کی پری وینٹو فورسز نے شہر کے جنوبی علاقے سے سابق اسیر پچیس سالہ یوسف عمران ابو حسین کو گرفتار کر لیا، وہ اس سے قبل تین بار اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ انہیں آخری مرتبہ رمضان میں دس روز کے لیے صہیونی عقوبت خانے میں رہنا پڑا تھا۔
اتھارٹی کے انٹیلی جنس ادارہ بھی سنہ 2008ء میں ابو حسین کو پینتالیس یوم تک تفتیش اور تشدد بناتا رہا ہے۔ اس وقت ان کی رہائی کے فورا بعد انہیں اسرائیلی فوج نے گرفتار کر کے بیس ماہ تک قید کی سزا سنائی تھی۔
فلسطینی اتھارٹی کی فورسز نے الخلیل سے ہی ایک فلسطینی نوجوان مھند الھیمونی کو بھی حراست میں لے لیا۔ ایک اور سابق اسیر محمد فوزی الخطیب کو بھی دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ دوسری جانب ضلع جنین میں بھی اتھارٹی فورسز نے پینتالیس سالہ حماس کے کارکن ابراھیم جمیل صعابنہ کو تفتیش کے لیے طلب کرنے کے بعد حراست میں لے لیا۔
سنہ 2006ء کے عام فلسطینی انتخابات میں حماس کی فتح پر واضح برتری کے بعد سے دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات گہرے ہونے کے بعد دونوں جماعتوں میں اختلافات گہرے ہو گئے تھے۔ جس کے بعد سنہ 2007ء سے مغربی کنارے میں فتح اور غزہ میں حماس کی الگ الگ حکومتیں قائم ہیں۔ تاہم مغربی کنارے میں فتحاوی حکومت گزشتہ چار سالوں سے حماس کے کارکنوں اور حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیلی فوج کے ساتھ سکیورٹی تعاون کے نام پر تحریک فتح کی سکیورٹی فورسز نے حماس حامیوں کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔ چار مئی 2011ء کو دونوں جماعتوں کے درمیان قاھرہ میں مصری ثالثی میں ایک مفاہمتی معاہدہ طے پایا، جس میں فلسطینی عبوری قومی حکومت کی تشکیل، سکیورٹی کونسل کے قیام اور تنظیم آزادی فلسطین ’پی ایل او‘ کی تنظیم نو کے ساتھ ساتھ سیاسی گرفتاریوں کے خاتمے کی شق بھی شامل تھی۔ تاہم فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے دیگر معاملات پر ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ اتھارٹی کی فورسز کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں بھی مسلسل جاری ہیں۔