مصر اور فلسطین کی معروف سیاسی و مذہبی شخصیات نے مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی کے تحفظ اور القدس اور دیگر مقدس مقامات کو یہودیانے سے محفوظ رکھنے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
مہم کا آغاز کرنے والی معروف فلسطینی اور مصری شخصیات نے عالم اسلام سے مسلمانوں کے حرم ثالث مسجد اقصی کو اسرائیلی ریشہ دوانیوں سے بچانے کے لیے فوری متحرک ہونے کا مطالبہ کیا۔ بالخصوص مسجد اقصی کے مراکشی دروازے کے پل کو منہدم کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کی اپیل کی۔
معروف شخصیات نے فیڈریشن آف عرب ڈاکٹرز کی القدس کمیٹی کے سربراہ جمال عبد السلام کی سربراہی میں ایک ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ یہ کمیٹی مسئلہ فلسطین پر کام کرنے والی تمام تنظیموں، اداروں اور شخصیات کے تعاون کے ساتھ اپنے اہداف کے حصول کی جدوجہد جاری رکھے گی۔
مہم کے منتظمین کے جاری کردہ بیان میں واضح کیا گیا کہ اس ضمن میں مصری فوجی کونسل، الازھر یونیورسٹی، مصری پارلیمان، اسلامی تعاون کونسل، عرب لیگ، علمائے اسلام کے عالمی اتحاد اور تمام عرب اور اسلامی ممالک سے تعاون بھی حاصل کیا جائے گا۔
عبد السلام نے واضح کیا کہ اسرائیل القدس کی ڈیموگرافک صورتحال تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر دارالعلوم کالج کے استاذ صلاح سلطان نے القدس کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت سے نمٹنے کے لیے فوری مداخلت کی ضرورت پر زور دیا۔
مفکر اسلام ڈاکٹر محمد عمارہ کا کہنا تھا کہ فلسطین اور القدس کا مسئلہ دراصل تہذیبوں کا تصادم ہے جس میں کامیابی کے لیے پوری امت کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
اس موقع پر تنظیم آزادی کے رکن زیاد ابو شاویش نے کہا کہ اسرائیل جارحیت کو بات چیت اور بیانات سے نہیں روکا جا سکتا، القدس کی عربی شناخت کے تحفظ کے لیے تمام عرب ممالک کی حکومتوں کو اسرائیل پر دباؤ بڑھانا ہوگا۔
عالم اسلام کے نامور مصنف اور فلسطینی مفکر عبد القادر یاسین کا کہنا تھا کہ حالت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ القدس کے تحفظ کے لیے فلسطینی قوم کے پاس صرف مسلح جدوجہد کا اختیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد القدس کی گیارہ سو مساجد کو شراب خانوں اور قحبہ گری کے اڈوں میں تبدیل کردیا ہے۔
مہم کے آغاز کے موقع پر مصری پریس سنڈیکیٹ کے سابق رکن صلاح عبد المقصود نے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔