ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ ”ان کے ملک کو امریکا کے مقابلے کے لیے جوہری بم کی ضرورت نہیں ہے”۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے متعلق کسی الزام کو قبول نہیں کرے گا۔
ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایرنا نے صدر محمود احمدی نژاد کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ”اگر امریکا، ایرانی قوم سے محاذ آرائی کرنا چاہتا ہے تو اسے یقیناً ایرانی قوم کے ردعمل پر افسوس کرنا پڑے گا”۔انھوں نے کہا کہ ”تاریخ میں یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ جس کسی نے ایرانی قوم کےخلاف کارروائی کی ،اس کو افسوس کا اظہار کرنا پڑا”۔
صدراحمدی نژاد نے سوموار کو اسرائیل اور امریکا پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ ایران کے خلاف حملے کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے اسے ایک بہت سنگین غلطی قرار دیا۔
ایرانی وزیرخارجہ علی اکبر صالحی نے بھی منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ مغرب کے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں جس سے یہ بات ظاہر ہو کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے۔انھوں نے پڑوسی ملک آرمینیا میں آئی اے ای اے کی رپورٹس کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مغرب اور امریکا کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ہی ایران کے خلاف دباؤ ڈال رہے ہیں۔
صالحی نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم متعدد مرتبہ اپنا یہ موقف واضح کر چکے ہیں کہ ہم جوہری بم تیار نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ آئی اے ای اے کی جانب سے اسی ہفتے جاری کی جانے والی رپورٹ میں امریکا کی ایرانی پروگرام سے متعلق تشویش ہی کو درست ثابت کیا جائے گا۔
درایں اثناء اسرائیل کے انتہا پسند وزیرخارجہ ایویگڈورلائبرمین نے کہا ہے کہ ایران کے مرکزی بنک اور تیل اور گیس کے شعبے پر سخت پابندیوں سے ہی اس کو جوہری پروگرام پرعمل درآمد سے روکا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی اخبار معاریف میں منگل کو شائع شدہ ایک بیان کے مطابق مسٹر لائبرمین نے کہا کہ ایران کو اپاہج کر دینے والی پابندیوں ہی کے ذریعے مذاکراتی میز پر مل بیٹھنے اور دوسروں کی بات سننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔انکا کہنا تھا کہ ”آئی اے ای اے کی رپورٹ کے اجراء کے بعد بھی امریکا اگر ایران کے خلاف سخت پابندیاں عاید کرنے کے لیے اقدام نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ امریکا اور مغرب نے ایک جوہری ایران کو قبول کر لیا ہے”۔