امریکا کے سابق وزیرخارجہ جیمزبیکر نے اسرائیل میں متشدد خیالات کے حامل وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کےساتھ مذاکرات میں تعطل کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2012ء کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل مشرق وسطیٰ کے بارے میں کوئی بڑی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق سابق امریکی وزیرخارجہ نےان خیالات کا اظہار واشنگٹن میں ایک نیوزبریفنگ کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "فریقین کو کسی امن سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے اسرائیلی حکومت کی سنجیدگی درکارہو گی لیکن موجودہ حالات میں اسرائیل خطے میں امن کےقیام میں غیر سنجیدہ ہے۔ حکومت کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ آیا وہ امن کے قیام میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت کو سابق صدر اسحاق رابین کا طرزعمل اختیار کرتے ہوئےخود کو مشکل فیصلے قبول کرنے کے لیے تیار کرنا ہو گا لیکن مجھے افسوس ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت نے خود کو قیام امن کے اقدامات میں نااہل ثابت کیا ہے۔
ایک سوال کےجوب میں جیمزبیکر نے کہا کہ آئندہ سال کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل مشرق وسطیٰ میں کسی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ امریکا کی تمام ترجہ توجہ آئندہ سال کے انتخابات پر مرکوز ہے اور امریکی سیاسی جماعتیں اس وقت اسرائیل کےحامیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
سابق امریکی وزیرخارجہ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی بھی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیل کی امن عمل سے گریز کی پالیسی کھل کرسامنے آ گئی ہے۔
خیال رہے کہ جیمزبیکر جارج بش سینئر کے دورحکومت میں وزیرخارجہ کے عہدے پر تعینات رہے ہیں۔