فلسطینی مجلس قانون کے اسپیکر اور ممتاز فلسطینی سیاست دان ڈاکٹر عزیزدویک نے ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک وقوم کے مفادات میں مشترکہ قومی حکمت عملی وضع کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ دشمن کا مقابلہ تنہائی سے نہیں بلکہ اتحاد ہی سے کیا جا سکتا ہے اور فلسطینیوں کو اپنے حقوق کے حصول کے آخرکار متحد ہونا پڑے گا۔
فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسپیکر نے ان خیالات کا اظہار مغربی کنارے میں مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کی تحلیل کے اعلان پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹرعزیزدویک نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی میں خود کو تحلیل کرنے کی صلاحیت نہیں، کیونکہ فلسطینی اتھارٹی نے مختلف ممالک کے اس طرح کے معاہدے کر رکھے ہیں کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے مسائل کا حل صرف یہ ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور نئی قومی حکمت عملی وضع کریں۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی سیاست دان نے کہا کہ قوم کو اس وقت ایک ایسی اتھارٹی اور نمائندہ حکومت کی ضرورت ہے جو ان کے حقوق کی جنگ کو دنیا کے ہر فورم تک لے جا سکے۔ ایک ایسی فلسطینی انتظامیہ جو صہیونی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور "وفاءاحرار” جیسے معاہدے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ان کا اشارہ حال ہی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پائے قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے "وفاء احرار” کی جانب تھا۔ اس معاہدے کی رو سے حماس نے اسرائیل کے ایک فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے میں اپنے ایک ہزار ستائیس اسیران کی رہائی پر دشمن کو قائل کیا تھا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کا مستقبل روشن اور خود فلسطینی عوام کے ہاتھ میں ہے۔ عرب ممالک میں آنے والے انقلابات کے بارے میں ڈاکٹر دویک نے کہا کہ "عرب بہاریہ فلسطینیوں کے لیے ایک نئی خوشخبری لے کر آیا ہے۔ عرب اقوام جہاں جابر حکمرانوں کے شکنجے سےباہر نکل رہی ہیں وہی انہوں نے عالمی طاغوتی قوتوں کو بھی ایک نئے انداز میں للکارا ہے۔ اب تمام عرب اقوام کا مستقبل بھی ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے سے نہیں روک سکتی۔
فلسطینی مجلس قانون ساز کی کارروائی کے تعطل کی ذمہ داری رام اللہ اتھارٹی پرعائد کرتے ہوئے ڈاکٹرعزیز دویک نے کہا کہ مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کی انتظامیہ مجلس قانون ساز کو اپنے آئینی کردار ادا کرنے میں مشکلات سے دوچار کر رہی ہے جس کے باعث مجلس قانون ساز کا سیاسی اور آئینی عمل کئی سال سے تعطل کا شکار ہے۔