اسرائیلی سپریم کورٹ نےایک سال قبل صہیونی اپیل کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے جس میں فلسطینی مجلس قانون ساز کے بیت المقدس سے تعلق رکھنےوالے تین اراکین قانون ساز کونسل اور ایک سابق وزیر کی شہربدری کا حکم دیا گیا تھا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی سپریم کورٹ کی جانب سے پیر کے روز جاری کیےگئے ایک فیصلے میں وزارت داخلہ کے حکام کو بتایا گیا ہے کہ آئین اور قانون کسی بھی بیت المقدس کے باشندے کو محض اس بنا پر شہربدری کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ شہری اسرائیلی ریاست کا وفادار نہیں ہے۔
خیال رہے کہ صہیونی اپیل کورٹ کی جانب سے گذشتہ برس جون میں جاری کیے گئے فیصلے میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ بیت المقدس کے ایک سابق وزیر اور تین موجودہ اراکین قانون ساز کونسل اسرائیل سے وفاداری کا مظاہرہ نہیں کرتے،لہٰذا انہیں بیت المقدس شہر سے بے دخلی کا حکم دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق ہر وہ شخص کو بیت المقدس میں پیدا ہوا اور اس کی شہریت کا حامل ہے تو اسے محض اس بنا پر شہر سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی اسرائیلی حکومت کے ساتھ وفاداری نہیں ہے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو جواب داخل کرنے کے لیے تین ماہ کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے فلسطینیوں کی شہر بدری کا تسلی بخش جواز پیش کریں ورنہ اپیل کورٹ کا فیصلہ منسوخ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل عمل سمجھا جائے گا۔
اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلے بعد تذبذب کا شکار تین فلسطینی اراکین قانون ساز کونسل اور ایک سابق وزیرنے سکھ کا سانس لیا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی شہربدری کی منسوخی کا فیصلہ حتمی ہو گا اور وزارت داخلہ اب سپریم کورٹ کو بلیک میل نہیں کر سکے گی۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس جون میں اسرائیلی اپیل کورٹ کے فیصلے کے بعد شہری بدری کی دھمکیاں زدہ چاروں فلسطینی شہریوں محمد طوطح،احمد عطون،محمد ابوطیر اورسابق وزیر خالد ابوعرفہ نے بیت المقدس میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ریڈ کراس کےدفتر کے باہراحتجاجی خیمہ نصب کر کے مکمل ایک سال تک احتجاجی دھرنا دیے رکھا ہے۔