اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے نتیجے میں رہا ہونے والے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت اپنی قید کے بارے میں کچھ تفصیلات بیان ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی میڈیا میں آنے والے گیلاد شالیت کی گفتگو اس نے اپنے اقارب سے ملاقاتوں کے دوران کی ہے۔
گیلاد شالیت کا کہنا ہے کہ اسے ساڑھے پانچ سال ایک تک اور تاریک کمرے میں رکھا گیا تاہم اس دوران اسے ریڈیو اورٹیلی ویژن کی سہولت حاصل تھی۔
شالیت کے ایک رشتہ دارنے اسرائیلی میڈیا کو بتایا کہ گیلاد شالیت کا کہنا ہے کہ پانچ سال کی حراست کے دوران اس نے عربی زبان بھی کافی حد تک سمجھ لی اور اب وہ عربی زبان سمجھ لیتا ہے تاہم بولنے کی صلاحیت نہیں۔
گیلاد شالیت نے بتایا کہ اس کی حراست پر مامور بعض افراد کو وہ پہچان سکتا ہے، کیونکہ کچھ سیکیورٹی اہلکارطویل مدت تک اس کے ساتھ رہے ہیں۔ طعام کے بارے میں گیلاد شالیت کا کہنا ہے کہ اسے ہر جعمہ کے روز مرغی کا گوشت کھلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹا گوشت اور مچھلی بھی اسے کھانے کو ملتی رہی ہے۔
شالیت کا کہنا ہے کہ سنہ 2008ء میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی "لیڈ کاسٹ آپریشن” کے نام سے مسلط کی گئی جنگ کے دوران وہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی آوازیں اور زور دار بم دھماکوں کی آوازیں سنتا تھا جس پروہ بہت خوف زدہ تھا، کیونکہ اس یہ خدشہ تھا کہ اگر اسرائیلی طیاروں نے اس کے خفیہ ٹھکانے پربمباری کی تو وہ اس میں مارا جائے گا۔
ادھر گیلاد شالیت کے والد نوعوم شالیت کا کہنا ہے کہ ساڑھے پانچ سال تک غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے قبضے میں رہنے کے باعث اس کے بیٹے کی عادات بدل گئی ہیں۔ پہلے وہ ریڈیو اور ٹیلی کم دیکھتا اور سنتا تھا لیکن اب وہ پوری رات ریڈیو سنتا اور ٹیلی ویژن دیکھاتا رہتا ہے لیکن دن کو سوتا ہے۔