فلسطینی منظم تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” نے فرانس کی جانب سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم نے واضح کیا ہے کہ فلسطینیوں اور حماس کے بارے میں فرانس اور یورپ غلط فہمی کا شکار ہے۔ یورپ کو فلسطینیوں کی مخالفت میں اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہو گی
مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے حماس کے رہ نما اسامہ حمدان نے کہا کہ فرانسیسی صدر نیکولا سارکوزی کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بے وقت کی راگنی ہے۔ جس کا اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی یرغمالی فوجی گیلاد شالیت کو مفت میں رہا کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اسکی رہائی کے بدلے میں فلسطینیوں کو رہا کرانا مقصود تھا اور ایسا ہی کیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ حماس اسرائیل کو تسلیم کرے اور تشدد کا راستہ ترک کرے سمجھ سے باہر ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا فرانسیسی وزیراعظم سارکوزی نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرے۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں کے غصب شدہ حقوق انہیں دینے پر تیار نہیں تو فلسطینیوں صہیونی حکومت ساتھ کیوں جنگ بندی کریں گے۔
اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے حماس کی شرائط پرایک ہزار ستائیس فلسطینیوں کی رہائی کا معاہدہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ حماس کا اسیران کے بارے میں شروع دن سے موقف درست تھا اور اسی درست موقف کے تحت ہی اسرائیل کے ساتھ اسیران کے تبادلے کی ڈیل طے پائی ہے۔
حماس رہ نما نے مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ حماس پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے بجائے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ فلسطینیوں غصب شدہ حقوق انہیں واپس کر دے۔
خیال رہے قبل ازیں فرانسیسی وزیراعظم نیکولا سارکوزی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو چھوڑنا کافی نہیں بلکہ حماس کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو ایک آئینی مملکت کے طور پر تسلیم کرے اوراسرائیل پر حملے بند کر دے۔