فلسطین کی سب سے بڑی اور منظم مذہبی سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کی کامیاب ڈیل پر صدرمحمود عباس کی جماعت”حسد کی آگ” سے بھڑک اٹھی ہے۔
ایک رپورٹ کےمطابق "فتح” نے "وفاء اسیران” ڈیلنگ میں خامیاں تلاش کر کے حماس کو بدنام کرنے اور عوام میں جماعت کی تیزی سے بڑھتی حماس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے”میڈیا وار” شروع کر دیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے میں غیرقانونی طور پر حکمراں”فتح” کے وزیر، مشیر اور صدر محمود عباس کے تمام درباری حماس کےخلاف میدان میں اترآئے ہیں۔ یہ لوگ میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوزمیں بیٹھ کر حماس کےخلاف زہرمیں بجھے تیر و نشتر چلا رہے ہیں۔
حماس کےخلاف جاری میڈیا مہم کے تحت عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہےکہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کی ڈیل کر کے اسیران کے ساتھ نا انصافی کی ہے،کیونکہ "وفا اسیران” معاہدے میں 80 فی صد اسیران کا تعلق حماس سے بتایا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حماس کےخلاف فتح کی جاری میڈیا مہم میں گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے میں ایک ہزار ستائیس اسیران کی رہائی کے معاہدے کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر اور اس کے فوائد کو کم سے کم کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ فتح کی اسرائیل کے ساتھ سنہ 1993ء کے بعد سے اب تک مذاکرات کی تمام تر کوششوں کے باوجود قیدیوں کی رہائی کی اتنی بڑی کوئی ایک ڈیل بھی نہیں ہو سکی ہے، یہی وجہ ہے کہ فتح آج حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے اس کامیاب معاہدے پر سخت سیخ پا ہے۔
فتح کے وزراء، اراکین قانون ساز کونسل اور مشیران کے علاوہ صہیونی سلام فیاض کی حکومت کے زیرانتظام ذرائع ابلاغ کے تمام ادارے بھی حماس کے خلاف زہریلی مہم چلا رہے ہیں۔ نفرت پر مبنی اس مہم میں فتح کی ترجمان سمجھی جانے والی خبر رساں ایجنسی”معا” پیش پیش ہے۔
دوسری جانب حماس نے فتح کی جانب سے تمام غیرضروری اعتراضات اور واہیات کو مسترد کر دیا ہے۔ حماس کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ مصر نے بھی فتح کومعاہدے پر تنقید کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ مصری حکومت کا کہنا ہے کہ قاہرہ نے بڑی تگ ودو کے بعد اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ایک کامیاب ڈیل کرائی ہے، اس سے بہترڈیل موجودہ حالات میں نہیں ہو سکتی البتہ اگر فتح کو اس پر کوئی اعتراض ہے تو اسےچاہیے کہ وہ خود ہی اسرائیل کےساتھ کوئی اور ڈیل طے کر لے۔