اسرائیل کے سب سے بڑے خفیہ ادارے”موساد” کے سابق چیف جنرل ریٹائرڈ میئرڈاگان نے صہیونی حکومت اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان طے پانے والی اسیران کے تبادلے کی ڈیل پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تبادلہ اسیران معاہدے میں حماس فائدے میں اور اسرائیل خسارے میں رہا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کو اپنے ایک انٹرویو میں جنرل ڈاگان نے کہا کہ وہ اور اسرائیلی داخلی سلامتی کے ادارے "شاباک”کے سربراہ سنہ 2009ء میں سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ پر مسلسل اصرار کرتے رہے کہ وہ حماس کی جانب سے اسیران کی ڈیل کر لیں، کیونکہ اس وقت گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے جو قیمت چکائی گئی تھی وہ آج کے معاہدے سے کہیں کم تھی۔ ہم نے اولمرٹ پر واضح کر دیا تھا کہ وہ آج یہ معاہدہ نہیں کریں گے تو ہر آنے والے دن میں اس کی قیمت بڑھتی جائے گی، اور ایسے ہی ہوا۔ آج اسرائیل کو ایک ہزار ستائیس فلسطینیوں کی رہائی کا حماس کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا ہے۔
آغاز میں ایہود اولمرٹ قائل ہو گئے تھے اور وہ حماس کے ساتھ قیدیوں کی ڈیل کے لیے تیار تھے تاہم بعد میں انہوں موقف تبدیل کر لیا۔ جو ان کی تاریخی غلطی تھی۔ اگر وہ اس وقت ایسا نہ کرتے توآج اتنے زیادہ قیدی نہ چھوڑے جاتے۔ اس ڈیل کے نتیجےمیں پوری دنیا میں یہ پیغام گیا ہے کہ اسرائیل کو حماس کے سامنے جھکنا پڑا ہے۔ یہ معاہدہ اسرائیل کی عالمی سطح پر رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں موساد کے سابق چیف نے کہا کہ اگر ایک اسرائیلی قیدی کےبدلے میں اتنے زیادہ فلسطینی چھوڑنے تھے تو یہ معاہدے اڑھائی سال قبل بھی کیا جا سکتا تھا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے بھاری قیمت چکانے کا انتظار کیا گیا۔
خیال رہے کہ ایک ہفتہ پیشتر اسرائیل اور حماس کے درمیان مصر کی ثالثی کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ حماس نے اپنے ہاں یرغمالی صہیونی فوجی گیلاشالیت کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں ایک ہزار ستائیس فلسطینیوں کی رہائی کا مطالبہ تسلیم کرایا تھا۔ آج منگل سے ان اسیران کی رہائی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔