برطانیہ سے شائع ہونے والے عربی اخبار”الحیاۃ” نے اپنی رپورٹ میں مصری سفارتی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ قاہرہ نے فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت "فتح” کی جانب سے حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پائے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق الزامات مسترد کر دیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مصر نے فتح پر واضح کیا ہے کہ "وفاء اسیران”معاہدے کے تحت تیار کی جانے والی فہرست میں اکثریت حماس کے اراکین کی نہیں بلکہ فتح کے ارکین کی ہے جس کے بعد فتح کی طرف سے ایسے کسی الزام کی گنجائش نہیں رہتی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق عربی اخبار نے اپنی رپورٹ میں تبایا ہے کہ رام اللہ میں فتح کے وزیرخارجہ ریاض المالکی کے بعد سلام فیاض کے وزیر برائے امور اسیران بھی حماس کےخلاف الزامات میں میدان میں آ گئے ہیں۔ وزیر امور اسیران عیسیٰ قراقع نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پائے معاہدے”وفاء اسیران” میں زیادہ تر وہ نام شامل ہیں جن کا تعلق اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” سے ہے، اور اس میں فتح کےاسیر اراکین کی بہت کم تعداد شامل کی گئی ہے۔
فلسطینی ریڈیو سے بات کرتے ہوئےمسٹر قراقع نے الزام عائد کیا کہ یرغمالی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے میں حماس نے جو اسیران کے تبادلے کا معاہدہ کیا ہے اس میں اسیران کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا کیونکہ اس معاہدے کے تحت 80 فی صد افراد کا تعلق حماس سے جبکہ بقیہ بیس فی صد میں فتح اور دیگر جماعتوں کے اراکین شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق مصر نے رام اللہ اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کی ڈیل پر تنقید پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ قاہرہ حکام نے فلسطینی انتظامیہ پر واضح کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی جو ڈیل طے پائی ہے، اس میں طویل المدت سیکڑوں اسیران کے نام شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں وہ تمام طویل المدتی اسیران شامل ہیں جو2000ء سے قبل گرفتار کیے گئے تھے اور انہیں عمرقید یا اس سے زیادہ کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق فتح سے ہے نہ کہ حماس سے ہے۔
مصری ذرائع نے رام اللہ اتھارٹی کو بتایا کہ قاہرہ نے اسرائیل کے ساتھ ڈیل کے دوران فتح کے اسیر جنرل سیکرٹری مروان برغوثی اور محاذ آزادی فلسطین کے لیڈر احمد سعدات کے بارے میں آخری حد تک ان کے نام شامل کرنے کی کوششیں کیں، لیکن بعض اسیران کے بارے میںاسرائیل نے ہٹ دھرمی پر مبنی موقف اختیار کیے رکھا اوران کی تمام کوششوں کے باوجود اسرائیل نے ان کے نام شامل نہیں کیے، اس میں حماس کا کوئی قصور نہیں۔