فلسطینی بچوں کے قتل عام میں ملوث اسرائیلی اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیرخارجہ زیپی لیونی طویل عرصے کے بعد برطانیہ کے دورے پر لندن پہنچی ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں نےان کےخلاف فلسطین میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر انسانی حقوق کی عدالتوں میں دوبارہ مقدمات کے قیام پرغور شروع کیا ہے۔
خیال رہے کہ زیپی لیونی کےخلاف برطانیہ کی مختلف عدالتوں میں پہلے بھی فلسطینیوں کے قتل عام کے حوالے سے مقدمات درج تھےجس پرعدالتوں نے لیونی کو مطلوب قرار دے رکھا تھا، تاہم انہیں گرفتاری سےبچانے کے لیے برطانیہ کو اپنی آئین میں ترمیم کرنا پڑی ہے، جس کے بعد لیونی کا دورہ لندن ممکن ہوا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیم”فلسطین کلب” کے سیکرٹری اطلاعات و تعلقات عامہ زاہر بیراوی نے لندن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ وہ مختلف دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر لیونی کی گرفتاری کے لیے دوبارہ مقدمات کے اندراج پرغور کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام قانونی پہلوؤں پرغور کر رہے ہیں جن کے ذریعے زیپی لیونی کے خلاف کارروائی کو ممکن بنایا جانا شامل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بیراوی کا کہنا تھا کہ سابق اسرائیلی وزیرخارجہ کے خلاف برطانیہ کی کئی عدالتوں میں پہلے بھی مقدمات درج ہیں، تاہم آئین میں ترمیم کے بعد وہ مقدمات غیر فعال ہو چکے ہیں، وہانہیں مقدمات کو نئے قوانین کے تحت فعال کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نےمزید کہا کہ برطانیہ کا ترمیم شدہ آئین ہمیں کسی جنگی مجرم کےخلاف مقدمہ چلانے یااس کی گرفتاری کے لیے درخواست دینے سے منع نہیں کرتا۔ صہیونی جنگی مجرموں کےخلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے ان کے پاس کئی قانونی راستے ہیں، جنہیں وہ استعمال کریںگے۔
خیال رہے کہ سابق اسرائیلی وزیرخارجہ زیپی لیونی پر الزام کہ اس نے 2008ء کے آخرمیں غزہ پر مسلط جنگ کے دوران وزیرخارجہ کی حیثیت سے نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کی حمایت کرتے ہوئے فوج کوغزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری کا حکم دیا تھا۔ اس جنگ میں ڈیڑھ ہزار افراد جن میں اکثریت کم سن بچوں کی تھی کو شہید جبکہ پانچ ہزار سے زائد افراد کو زخمی کر دیا گیا تھا۔