مسجد اقصی کے خطیب الشیخ ڈاکٹر عکرمہ صبری نے کہا ہے کہ بیت المقدس کو یہودیانہ یا بین الاقوامی شہر قرار دینا قانونی طور پر مسترد ہے- اسرائیلی حکام مسجد اقصی کے نیچے کھدائی کررہے ہیں- مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے تین ہزار سے زائد گھروں کو اسرائیلی حکومت نے مسمار کرنے
کا نوٹس دے رکھا ہے-
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اردن کے اخبار ’’الغد‘‘ کو انٹرویو میں کیا- انہوں نے کہا کہ مسجد اقصی کے نیچے کھدا ئی نے بنیادوں کو ننگا کردیا ہے جس سے مسجد کے شہید ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا- زلزلے کے ہلکے سے جھٹکے سے مسجد زمین بوس ہوسکتی ہے- عکرمہ صبری نے بیت المقدس کے خلاف صہیونی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے مشرق میں ابو دیس اور سواحرہ کے علاقوں کی بارہ ہزار ایکڑ اراضی غصب کرلی گئی ہے جس کا مقصد ’’کیدار‘‘ یہودی آبادی کو ’’معالے ادومیم‘‘ یہودی آبادی سے ملانا اور بیت المقدس یہ جنوبی اور مشرقی دونوں جانب سے حصار مضبوط کرنا ہے- اس سازش کی تکمیل سے بیت المقدس فلسطینی شہری علاقے سے کٹ نہیں گئے-
عکرمہ صبری نے ذکر کیا کہ اسرائیلی حکومت کی توجہ مسجد اقصی کے بالمقابل سلوان ٹاؤن پر مرکوز ہے جہاں پر نئی یہودی آبادی کے قیام کا ارادہ ہے جبکہ الشیخ جراح، بیت حنینا اور راس خمیس کے علاقوں میں عرب شہریوں کے گھروں کو مسمار کیے جانے کے نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں-
اسرائیلی حکام نے 1967ء سے لے کر اب تک بیت المقدس کے گیارہ ہزار فلسطینیوں کو شہریت سے محروم کیا- جس کا مقصد بیت المقدس میں فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب کم کرنا ہے، اسرائیلی سازش ہے کہ 2020ء تک فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب پنتیس فیصد سے کم کر کے پندرہ فیصد کردیا جائے- اس سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عربوں کے گھر منہدم کیے جارہے ہیں-
ڈاکٹر عکرمہ صبری نے کہا کہ مسجد اقصی کو شہید کرنے کی غرض سے کھدائی کا عمل نہیں رکا- قدیم بیت المقدس اور سلوان کے علاقے میں جگہ جگہ سرنگیں کھودی گئی ہیں- سلوان میں انڈر پاس کا رخ مسجد اقصی کی طرف ہے- انڈر پاس اور مسجد اقصی کے درمیان صرف چھ میٹر کی سڑک کا فاصلہ ہے-
انڈر پاسز کے باعث مسجد اقصی کی مغربی دیوار کے بالمقابل فلسطینیوں کے گھروں کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں- یہ انڈر پاس مسجد اقصی کے نیچے تک پہنچ چکے ہیں- مسجد اقصی کی بنیاد کے نیچے بھی کھدائی کا انکشاف ہوا-
عکرمہ صبری نے متنبہ کیا کہ اسرائیلی حکومت مسجد اقصی کے امور پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے جس کے بعد وہ مسجد اقصی کی تقسیم کا مطالبہ کرے گی- وہ مطالبہ کرے گی کہ مسجد اقصی کا نچلا حصہ یہودیوں کے تسلط میں ہو اور اوپر والا حصہ مسلمانوں کے پاس ہو یا پھر وہ مسجد اقصی کے صحن کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کرسکتی ہے کہ آدھا صحن مسلمانوں کے پاس ہو اور آدھے صحن پر یہودیوں کا قبضہ ہو- ان سازشوں کا ہدف مسجد اقصی کو گراکر نام نہاد ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے- حالانکہ یہودی ماہرین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ مسجد اقصی کی جگہ پر ہیکل سلیمانی کے کوئی اثرات نہیں پائے جاتے-
عکرمہ صبری نے واضح کیا کہ اسلامی اوقاف کے تحت مسجد اقصی کے 200 محافظ ہیں جو کہ اردن میں اوقاف کے زیر انتظام ہیں- لیکن ان محافظوں کا مسجد اقصی میں عمل دخل برائے نام ہے، اصل کنٹرول اسرائیلی پولیس کا ہے- مسجد اقصی کا کوئی مسلمان محافظ کسی امر میں مداخلت کی کوشش کرے تو اسرائیلی پولیس اہلکار اسے گرفتار کرنے کی دھمکی دیتے ہیں-
شیخ ڈاکٹر عکرمہ صبری نے واضح کیا کہ موجودہ اسرائیلی حکومت کے سائے میں کوئی سیاسی کنارہ نہیں ہے- موجودہ حکومت کی پالیسیاں اسی صہیونی سیاست کا تسلسل ہیں جو بیت المقدس کو یہودی شہر بنانا چاہتی ہے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنا چاہتی ہیں- فلسطین، اسرائیل نامی مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اسرائیل سے مذاکرات بے سود ہیں- 1993ء معاہدہ اوسلو کے بعد سے فلسطین اسرائیل سے مذاکرات کرتے ہیں، لیکن ان مذاکرات سے کیا حاصل ہوا-
اسرائیل بیت المقدس اور پناہ گزینوں کے مسائل کو حل کرنے کو آخری مرحلے میں لے جانے میں کامیاب ہوگیا- اسرائیل نے فلسطینیوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ پناہ گزینوں اور بیت المقدس کا مسئلہ باقی مسائل کے بعد آخر میں زیر بحث لایا جائے گا- آج بیت المقدس کا مسئلہ مذاکرات میں داخل نہیں ہے کیونکہ اسرائیل متحدہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے- اس کا دعوی ہے کہ بیت المقدس ہمیشہ کے لیے اسرائیل کا دارالحکومت ہے اور اس کی تقسیم ممکن نہیں- عکرمہ صبری نے کہا کہ فلسطینیوں کا حق واضح ہے- اس سے دستبرداری اختیار نہیں کی جاسکتی پناہ گزینوں کے حق واپسی سے واپسی ممکن نہیں ہے-
عکرمہ صبری نے فلسطینی مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ بیرونی مداخلت اور مغربی کنارے میں حماس کے کارکنان کی سیاسی گرفتاریاں مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ ہیں- انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ فلسطینی اتحاد کے لیے کوشش کرے