گزشتہ چار دہائیوں سے سیاسی دنیا میں تہلکہ مچادینے والی نہایت اہم مگر رقبے لحاظ سے صرف ۴۰۳۵ مربع میل پر پھیلی ہو ئی دنیا کی چھوٹی سی ریاست لبنان جس کے مغرب میں بحیرہ روم اور شمال اور مشرق میں شام جبکہ جنوب میں "فلسطین” واقع ہے،اس کی سرحد شام کے ساتھ ۳۷۵ کلومیٹر جبکہ اسرائیل کے ساتھ ۷۹ کلومیٹر ہے ۔ چھ صوبوں بیروت، جبل لبنان، شمالی لبنان، بقاع، نبطیه اور جنوبی لبنان پرمشتمل اس ملک کی سرکاری زبان عربی ہے لیکن عام طور پر لوگ عربی اور فرانسیسی دونوں زبانوں پر عبور رکھتے ہیں چنانچہ اقوام متحدہ میں لبنان کو فرانسیسی زبان بولنے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک تخمینے کے مطابق لبنان میں ۴۵ فی صد مسیح ۵۰ فی صد مسلمان اور پانچ فی صد دیگرادیان کے پیروکاراور لادین لوگ رہتے ہیں۔اس طرح سے لبنان نہ صرف یہ کہ مسیحیّت اور اسلام کے درمیان مذاکرات اور مکالمات کی سرزمین ہے بلکہ دنیا عرب کو یورپ سے ملانے کا وسیلہ بھی ہے۔جب ہم اس ملک کی سیاسی و اجتماعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں توایسے محسوس ہوتاہے جیسے آئینہ دیکھ رہے ہوں، عرصہ دراز سے پاکستان کی طرح لبنان کی سیاسی و اجتماعی فضاءبھی بحرانات اور شکست و ریخت سے دوچار ہے اور دونوں ممالک میں اس شکست و ریخت کے اسباب کے تقریباً ایک جیسے ہیں۔یہاں پر ہم ان اسباب میں سے چند ایک کو بطور نمونہ عرض کر رہے ہیں:
۱۔حکمران طبقے کا ملّی مفادات اور عوامی رائے کے احترام کے بجائے امریکہ اور یورپ کا نوکر ہونا۔
۲۔حکمرانوں کا لوگوں میں معنویات کے بجائے لہو لعب اور مادیات کو فروغ دینا۔
۳۔کسی بھی قسم کے آئین یا ضابطے کو خاطر میں لائے بغیربڑی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں سر پٹ دوڑنا۔
۴۔خطے میں اپنی جغرافیائی حیثیت اور سیاسی اہمیت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کرسی اور اقتدار کے گرد چکر کاٹنا۔
۵۔اپنے ملت کش اقدامات اور مجرمانہ کردار پر پردہ ڈالنے کے لئے عوام میں تفرقہ ڈالنے اور کشت و خون کرنے کے لئے سرکاری اداروں کو استعمال میں لانا۔
۶۔ اپنی عوام،سیاستدانوں،علماء اور دانشمندوں کے قتل اور اغوا میں سامراجی طاقتوں کا ہاتھ بٹانا۔
۷۔ ہمارے ملک کی طرح ” لوٹا کریسی” کی سیاست کرنا۔ لوٹا کریسی سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی چھت اور ایک ہی سائبان کے نیچے زندگی گزارنے والے دو سگے بھائیوں یا باپ اور بیٹے کا منافقت کرنے پر متفق ہوجانا۔ ان کا آپس میں طے کرلینا کہ "مفادات”کے حصول کے لئے ہم نے لوٹابنناہے۔یعنی ہم میں سے ایک شام اور ایران سے محبّت کا دم بھرے گا اور دوسرا امریکہ اور یورپ کے دورے کرے گا۔
ایک لوگوں کو منافقین سے ہوشیار اور دور رہنے کی باتیں کرے گا جبکہ دوسرا اتحاد اور وحدت ملی کے نام پر کسی اصول کی پابندی نہیں کرئے گا اور ہر منافق اور منحرف شخص کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بن جائے گا۔
یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے بالعموم پورے عالم اسلام اور بالخصوص لبنان اور پاکستان کی کمر توڑ رکھی ہے،ان اسباب کے باعث طاغوت ہمیشہ” آرٹیفیشل کنڈیشنز”بنا کر دونوں ممالک سے بھرپور استفادہ کررہاہے ،ہم بھی آرٹیفیشل کنڈیشنزسے مرعوب ہوکر بارہادشمن کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں خاص کر ۱۱ستمبر کے بعد اور لبنان بھی،خصوصاً موجودہ دنوں میں دشمن نے لبنان کو ایک مرتبہ پھر داخلی جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔اس وقت لبنان جن آرٹیفیل کنڈیشنز کے سحر میں مبتلا ہے ان کا آغاز ۲۰۰۵ میں رفیق حریری کے قتل کے ساتھ ہواتھا۔استعمار نے ۲۰۰۵ میں لبنان میں یہ کنڈیشنز ایجاد کرنےکی ضرورت اس لئےمحسوس کی تھی کہ گزشتہ چند سالوں سے علاقے میں اسرائیل کا نہ صرف عسکری مورال ڈاون ہوتا جارہا تھا بلکہ عرب ریاستوں میں بھی اتحاد و وحدت کی سرگوشیاں سنائی دینے لگی تھیں،اس کے علاوہ علاقائی سیاست میں حزب اللہ، ایران اور شام کا پلڑا یورپ اورامریکہ کی نسبت بھاری ہوچکا تھا،ایسے میں استعمار کو لبنان میں بھی پینٹاگون کی طرح "مصنوعی حالات”یا آرٹیفشل کنڈیشنز کا سہارا لینا پڑا۔اس کے لئے۲۰۰۵ میں لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری کو بیروت میں دہشت گردی کا نشانہ بنا یا گیا،رفیق حریری کے قتل کا فوری فائدہ استعمار کو یہ حاصل ہوا کہ بیروت سے شامی افواج کا انخلا شرع ہوگیا اور اس قتل کوشام و لبنان اور حزب اللہ کے سر تھوپنے کی کوشش کی گئی جس سے منطقے میں اسلامی وحدت کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دھچکا لگا اور ایک دوسرے کے نزدیک ہوتی ہوئی عرب ریاستیں بھی پھر سے جمود کا شکار ہوگئیں۔اس صورتحال میں استعمار نے خطے میں حزب اللہ کو تنہامحسوس کرتے ہوئے ۲۰۰۶ میں حزب اللہ کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا ۔اس جنگ میں بنیادی طور پر دو قطب اپنی طاقت کا اظہار کرہے تھے۔ایک طرف نظریاتی ،فکری اور امدادی لحاظ سے امریکہ یورپ اور اسرائیل سمیت تمام استعمار نواز حکمران اور ممالک تھے جبکہ دوسری طرف ایران و شام کے علاوہ دنیا بھر کے استعمار دشمن عرب و عجم اور مشرق و مغرب سے تعلق رکھنے والے مسلم و غیر مسلم سب شامل تھے اور یوں یہ جنگ بارود اور ٹینکوں کے علاوہ دعاوں،نمازوں اور مناجات سے بھی لڑی گئی۔اس ۳۳ روزہ جنگ نے استعمار کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا،استعمار کی اپنی پیدا کردہ آرٹیفیشل کنڈیشنز یا مصنوعی حالات ان کے خلاف ہوگئے،حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا اورسید حسن نصراللہ نے ملت لبنان کو افراتفری اور غیر یقینی صورتحال سے نکال کر ایک مرتبہ پھر محبت اخوت اور اتحاد و اعتماد کے راستے پر گامزن کردیا۔اس دوران حسن نصراللہ نے بین لاقوامی برادری سے کئی مرتبہ اپیل کی کہ رفیق حریری کے قاتلوں کو بے نقاب کر کے سزا دلائی جائے اور ملت لبنان کو ان سازشی عناصر سے آگاہ کیا جائے ۔اصلی قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے مطالبے نے اسرائیل ،امریکہ اور یورپ کے لئےایک نئی مشکل کھڑی کر دی ،دوسری طرف حزب اللہ نے اس ضمن میں مکمل طور پر تعاون کرنے اور ثبوت فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی لیکن چونکہ اصل قاتلوں اور اصل سازش کے بے نقاب ہونے کاخطرہ تھا لہذا جھوٹے گواہ ،بیانات اور دلائل تیار کئے گئے اور پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے اس قتل کا ذمہ دارامریکہ ،اسرائیل اور یورپ کے بجائے ایک مرتبہ پھر شام ،ایران اورحزب اللہ کو ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس مردہ سازش کو نئے سرے سے کارآمد بنانے کے لئے ایک سال پہلے جرمنی کے ایک مجلّے "اشپیگل” نے رفیق حریری کے قتل کا مقدمہ سننے والی بین الاقومی عدالت کے بارے میں ایک مضمون چھاپا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ اس قتل میں حزب اللہ کے لوگ ملوث ہیں نیز اس مقالے میں لبنان میں داخلی جنگ بھڑکانے کے لئے از سرنو سازش کا نقشہ کھینچا گیا اور پھر تقریباً ایک ماہ پہلےاسی مقالے کا ترجمہ لبنان میں چھپا ۔یوں اس مسئلے کو غلط رنگ میں پیش کرکےاچھالنے کی ایک اور کوشش کی گئی ،اس مرتبہ رفیق حریری کے بیٹے سعد حریری نے بھی ہمارے حکمرانوں کی طرح کھل کر استعمار کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں حزب اللہ نے اس دعوے کے خلاف لوگوں کے سامنے بے شمارٹھوس ثبوت پیش کئے اور یہ بھی ثابت کیا کہ رفیق حریری اپنے باپ کے قاتلوں کے ساتھ عرصہ دراز سے ملا ہواہے۔ اس کے بعد رفیق حریری جوکہ چند دن پہلے تک لبنان کا وزیراعظم تھا اسے اپنی حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے ۔اب امید ہے کہ جلد ہی استعمار کی یہ کوشش بھی سابقہ کوششوں کی طرح خاک میں مل جائے گی اور استعمار کو ایک مرتبہ پھر حزب اللہ کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔لبنان کے حالات پرنگاہ ڈالنے سے باآسانی یہ محسوس ہوتاہے کہ اگر ہم بھی لبنان کے حالات سے عبرت اور حزب اللہ سے بصیرت سیکھ لیں تو ہمارے دن بھی پھر سکتے ہیں اور ہم بھی استعمار کے چنگل سے نجات حاصل کر سکتےہیں چونکہ لبنان ہمارے لئے آئینہ ہے اور آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
نذر حافی