روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
یہودی آبادکار گروہ آئندہ اتوار کے روز مسجد اقصیٰ پر وسیع پیمانے پر دھاوے بولنے کی تیاری کر رہے ہیں، جو یہودی عید الانوار حانوکاہ کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، حالانکہ اس عید کا پہلا دن رواں ماہ 15 دسمبر کو آتا ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس گورنری نے اپنے جاری کردہ بیان میں جس کی نقل مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہوئی میں کہا ہے کہ آئندہ اتوار کو مسجد اقصیٰ پر نام نہاد یہودی عید الانوار حانوکاہ کے موقع پر شدید جارحیت متوقع ہے، جس کے ساتھ ہی رواں سال اقصیٰ پر یہودی دھاوؤں کا موسم اختتام پذیر ہوتا ہے، جبکہ مقدسات اسلامی کے خلاف مزید اشتعال انگیزی اور سنگین خلاف ورزیوں کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں۔
یہ عید آٹھ دن تک منائی جاتی ہے، جس دوران یہودی شمعیں روشن کرتے ہیں، ایک ایسی روایتی داستان کی بنیاد پر جو حشمونیوں کی یونانیوں پر فتح اور قبل مسیح دوسری صدی میں القدس میں اقتدار کی تبدیلی کا دعویٰ کرتی ہے۔
یہ روایت ایک اساطیری کہانی پر مبنی ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ تیل کی ایک چھوٹی سی شیشی نے آٹھ دن تک شمعدان کو روشن رکھا تھا۔
انتہا پسند ہیکل گروہ ہر سال اس عید کو مسجد اقصیٰ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، منظم دھاوؤں اور شمعدان اندر لے جانے کی کوششوں کے ذریعے وہ اشتعال انگیزی کا ارتکاب کرتے ہیں، جبکہ درانداز ہر موقع پر مسجد کے اندر شمعیں روشن کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔
گذشتہ سال ریکارڈ کی گئی خلاف ورزیوں میں مسجد کے اندر توراتی رسومات کی ادائیگی، ٹیفلین کی پٹیاں پہننا اور شمعیں جلانا شامل تھا، جبکہ قابض اسرائیل کے وزیر ایتمار بن گویر بھی ان دھاوؤں میں شامل رہا۔
القدس میں اسلامی اوقاف کے محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق، گذشتہ عید الانوار کے دوران 2556 آبادکار مرد و خواتین نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولا، جبکہ سنہ 2023ء میں یہ تعداد 1332 اور اس سے پچھلے سال 1800 رہی۔
رواں سال کی تیاریوں کے تناظر میں سات دسمبر کو دیوار براق کے میدان میں جو مسجد کے مغربی حصے سے متصل ہے ایک دیوہیکل شمعدان نصب کیا گیا، تاکہ غروب آفتاب کے ساتھ روزانہ شمع روشن کی جا سکے۔ اسی طرح مسجد کے مختلف دروازوں، بالخصوص باب المغاربہ اور باب الاسباط کے قریب بھی شمعدان رکھے گئے ہیں۔
مسجد اقصیٰ میں یہودی وجود مسلط کرنے کی کوشش
القدس امور کے محقق فخری ابو دیاب نے آئندہ دنوں میں مسجد اقصیٰ کے خلاف متوقع سنگین خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر نام نہاد یہودی عید حانوکاہ کے قریب آنے کے باعث، جو ان کے مطابق 25 دسمبر سے شروع ہو کر آٹھ دن تک جاری رہتی ہے۔
صحافتی بیانات میں ابو دیاب نے وضاحت کی کہ عید کے دنوں میں انتہا پسند آبادکاروں اور ہیکل گروہوں کے ارکان کی بڑی تعداد میں یلغار متوقع ہے، جنہیں قابض اسرائیل کی دائیں بازو حکومت کی کھلی سرپرستی حاصل ہے، اس کا مقصد مسجد کے اندر یہودی وجود کو مضبوط کرنا اور نئی یہودیت زدہ حقیقتیں مسلط کرنا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ دھاوے بولنے والے صہیونی مسجد کے صحنوں میں علانیہ تلمودی رسومات ادا کریں گے اور اشتعال انگیز رقص کریں گے، جبکہ بعض عناصر حرم قدسی میں حانوکاہ کی شمعیں جلانے کی کوشش بھی کریں گے، جو ان کے اس باطل عقیدے کی عکاسی ہے کہ یہ مقام اسلامی مسجد نہیں بلکہ نام نہاد یہودی ہیکل ہے۔
مسجد اقصیٰ کے لیے خطرناک ترین مرحلہ
ابو دیاب نے بتایا کہ صہیونی انتہا پسند وزرا اور کنیسٹ کے ارکان براہ راست ان دھاوؤں کی قیادت کریں گے، جس کا واضح مقصد مسجد اقصیٰ پر نام نہاد یہودی بالادستی مسلط کرنا ہے اور ممکنہ طور پر اسے مکانی طور پر تقسیم کرنے کی راہ ہموار کرنا، بالخصوص باب الرحمہ کے مصلیٰ سے ملحقہ مشرقی حصے میں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قابض افواج فلسطینی اور مسلمان نمازیوں کے داخلے پر سخت پابندیاں عائد کریں گی، مرابطین کو بے دخل کیا جائے گا اور مغربی کنارے اور مقبوضہ اندرون سے آنے والوں کو روکا جائے گا، تاکہ مسجد کو خالی کر کے تلمودی رسومات کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔
ابو دیاب نے آئندہ دنوں کو مسجد اقصیٰ کے لیے انتہائی خطرناک مرحلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ جیو سیاسی حالات سے قابض قوتیں اور ہیکل گروہ مزید سفاکیت پر دلیر ہو رہے ہیں۔
گفتگو کے اختتام پر انہوں نے القدس، مقبوضہ اندرون اور مغربی کنارے میں موجود فلسطینی عوام سے اپیل کی کہ وہ عید کے دنوں میں مسجد اقصیٰ کی طرف کثرت سے سفر کریں، وہاں مستقل رباط اختیار کریں اور فلسطینی، عرب اور اسلامی سطح پر وسیع آگاہی مہمات چلائیں، تاکہ القدس اور مقدسات کا دفاع کیا جا سکے۔
ان عیدوں کو اقصیٰ سے جوڑنے پر اصرار کیوں؟
سیاسی اور دینی تناظر میں سیاست دان اور مذہبی رہ نما کمال خطیب نے کہا کہ انتہا پسند گروہوں کا عید الانوار کو مسجد اقصیٰ سے جوڑنے پر اصرار کسی مذہبی عقیدے کا نتیجہ نہیں بلکہ زمین اور مقام پر قبضے کے ایک نظریاتی منصوبے کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس کو فلاشا یہودیوں کی عید سیجد سے تشبیہ دی، جس کے دوران بھی مسجد پر دھاوؤں کی دعوت دی جاتی ہے۔
خطیب نے وضاحت کی کہ آبادکار قدم بہ قدم کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں، ہر نئی دراندازی کے بعد ردعمل کو جانچتے ہیں اور گذشتہ برسوں میں کمزور ردعمل نے انہیں شمعیں جلانے سے لے کر مذہبی کتابیں اور رسومات اندر لانے کے مطالبات تک مزید آگے بڑھنے کی ہمت دی ہے۔
انہوں نے موجودہ مرحلے کو عرب اور اسلامی سطح پر منہ موڑنے کا دور قرار دیا، جہاں قابض اسرائیل کی فلسطینیوں بالخصوص القدس اور مقبوضہ اندرون کے خلاف اشتعال انگیز پالیسیاں عید الانوار میں مزید خلاف ورزیوں کی راہ ہموار کر رہی ہیں، اور یہ سلسلہ آئندہ رمضان، عید فصح اور دیگر تہواروں میں بھی شدت اختیار کر سکتا ہے۔
گفتگو کے اختتام پر خطیب نے کہا کہ آج سوال یہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے بلکہ یہ کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، جو عرب اور اسلامی کردار کی عدم موجودگی اور آوازوں کو دبانے کے باعث انتہائی تکلیف دہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے اس امید پر زور دیا کہ القدس کے باسی اور مقبوضہ اندرون کے فلسطینی عوام ہی مسجد اقصیٰ کے لیے حفاظتی حصار ہیں، جو رباط اور مسلسل تعلق کے ذریعے اس کی حفاظت کر رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ دن آئے جب امت دوبارہ اپنا کردار ادا کرے اور مسجد اقصیٰ المبارک کو زنجیروں سے آزاد کرائے۔