روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
غزہ میں حکومتی میڈیا آفس کی جانب سے منجمد قطبی طوفان پبرون” کے حوالے سے جاری کی گئی ابتدائی وارننگز آج عملی حقیقت بن چکی ہیں۔ بدھ کی شام سے جمعہ تک غزہ پٹی پر مسلسل ٹوٹ پڑنے والی شدید موسمی آفت نے حالات کو ایک دل خراش سانحے میں بدل دیا ہے۔
حکومتی میڈیا آفس نے مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہونے والے اپنے تازہ بیان میں بتایا کہ اس طوفان نے تباہ کن سیلاب، تیز رفتار آندھیاں، بلند سمندری لہریں اور شدید گرج چمک کے طوفان پیدا کیے ہیں جنہوں نے پندرہ لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینیوں کو ڈوبنے اور پہلے سے تباہ حال مکانات کے مکمل انہدام کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ دو برس سے زیادہ عرصے سے بوسیدہ خیموں اور عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے والے لاکھوں فلسطینی خاندان آج ایک غیر مسبوق خطرے کا سامنا کر رہے ہیں، کیونکہ قابض اسرائیل بدستور تیار شدہ گھروں، پناہ کے لوازمات اور حفاظتی سامان کی بندرگاہوں میں آمد روک رہا ہے اور کوئی عالمی ادارہ کم سے کم حفاظتی سہولت فراہم کرنے کے لیے بھی آگے نہیں بڑھ رہا۔
بیان کے مطابق گذشتہ چند گھنٹوں میں صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔ قطبی طوفان اور شدید ہواؤں کے نتیجے میں بارہ شہری شہید یا لاپتا ہو گئے ہیں جبکہ غزہ کے مختلف علاقوں میں پہلے سے مسمار شدہ عمارتیں مزید منہدم ہو گئیں۔
میڈیا آفس نے کم از کم تیرہ گھروں کے گرنے کی تصدیق کی ہے جن میں آخری واقعات غزہ شہر کے حي الکرامہ اور حي الشیخ رضوان میں پیش آئے۔ سول ڈیفنس کی ٹیمیں سینکڑوں مسلسل موصول ہونے والی مدد کی کالوں پر صلاحیت سے بڑھ کر کام کر رہی ہیں۔
بیان میں بتایا گیا کہ ستائیس ہزار سے زیادہ خیمے شدید بارش، سیلاب یا آندھیوں کے نتیجے میں ڈوب گئے، اکھڑ گئے یا بہہ گئے ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائد مہاجرین براہ راست پانی اور ملبے کے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جس نے انسانی بحران کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
میڈیا آفس نے واضح کیا کہ جو کچھ اس وقت غزہ میں ہو رہا ہے وہ ایک ایسے المناک منظرنامے کی تصویر ہے جس سے مسلسل خبردار کیا جا رہا تھا۔ ہزاروں خاندان ایسی خیمہ بستیوں میں محصور ہیں جو نہ بارش روک سکتی ہیں نہ تیز ہواؤں کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور بین الاقوامی خاموشی ان کے درد میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ شدید موسم ایک ایسے انسانی المیے پر آ کر پڑا ہے جو پہلے ہی قابض اسرائیل کے مسلسل محاصرے اور جنگ کے سبب انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ قابض اسرائیل اب بھی تمام گزرگاہیں بند کیے ہوئے ہے اور تین لاکھ خیموں، موبائل گھروں، کرفانوں اور فوری پناہ کے سامان تک کی ترسیل روک دی گئی ہے۔
دفتر کے مطابق یہ تمام اقدامات بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی توہین ہیں اور بدستور جاری جارحیت کے ماحول میں لاکھوں شہریوں کو براہ راست موت کے خطرے سے دوچار کر رہے ہیں جن کے لیے کوئی محفوظ متبادل تک میسر نہیں۔
حکومتی میڈیا آفس نے اقوام متحدہ، عالمی اداروں، امریکی صدر ٹرمپ، وسطی فریقوں، سیز فائر کے ضامنوں، دوست ممالک اور ڈونرز سے فوری اپیل کی ہے کہ وہ قابض اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ فوراً تمام گزرگاہیں کھولے، پناہ کا سامان اور ہنگامی امداد داخل ہونے دے اور سول ڈیفنس کی بنیادی ضروریات پوری کی جائیں۔
دفتر نے سینکڑوں ہزار متاثرہ خاندانوں کے لیے فوری بین الاقوامی تحفظ کا مطالبہ بھی کیا ہے تاکہ آئندہ چند گھنٹوں اور آنے والے دنوں میں ممکنہ مزید ڈوبنے اور انہدام کے المناک مناظر کو روکا جا سکے۔