روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
مقبوضہ بیت المقدس کے گرد و نواح میں قائم بدوی فلسطینی آبادیوں کو دہائیوں بعد سب سے بھیانک منظم بے دخلی کا سامنا ہے۔ قابض اسرائیل کی جانب سے استعماری منصوبہ (E1) کی رفتار تیز ہونے کے بعد یہ خطرہ شدید تر ہو چکا ہے۔ اس منصوبے کا واضح مقصد شمالی اور جنوبی غرب اردن کو ایک دوسرے سے کاٹ کر الگ تھلگ کرنا اور فلسطینی جغرافیائی تسلسل کو توڑ کر القدس کو معالیہ ادومیم کی غیر قانونی بستی سے جوڑ دینا ہے۔
تقریباً 46 بدوی بستیاں اس جارحانہ منصوبے کے عین مرکز میں ہیں، جہاں انہیں کمزور ترین کڑی سمجھتے ہوئے مسلسل نوٹسز، گھروں کی مسماری اور رزق کے ذرائع پر قبضے کے ذریعے فلسطینی وجود کو مٹانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اسی بنیاد پر ہزاروں استعماری یونٹوں کی تعمیر کی راہ بھی کھولی جا رہی ہے۔
منصوبہ کئی برس کے تعطل کے بعد دوبارہ فعال ہوا ہے، جس کے نتیجے میں بدوی فلسطینیوں کی ہزاروں نفوس پر مشتمل آبادی کو فوری اور کھلی جبری بے دخلی کا خطرہ لاحق ہے۔ یہ پالیسی القدس کے گرد فلسطینی موجودگی کو ختم کر کے ایک گھیرا قائم کرنے کا واضح حصہ ہے۔ سنہ1967 ءسے ان بدوی خاندانوں کے لیے کوئی متبادل مہیا نہیں کیا گیا اور اب انہیں بغیر کسی متبادل کے گھروں سے نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
منظم جبری بے دخلی کی مہم
مقبوضہ بیت المقدس گورنری نے خبردار کیا ہے کہ قابض فوج اور آباد کار ان بستیوں کے خلاف خطرناک رفتار سے جارحیت بڑھا رہے ہیں۔ گورنری کے مطابق یہ ایک ’’تدریجی اکھاڑ پھینکنے‘‘ کی مہم ہے جس کا ہدف القدس کے مشرقی علاقوں میں فلسطینی زندگی کا قلع قمع کرنا ہے۔
گورنری کا کہنا ہے کہ یہ جبری بے دخلی ایک وسیع استعماری منصوبے کا حصہ ہے جو روزمرہ زندگی کو مفلوج کر کے بدوی خاندانوں کے سماجی اور معاشی استحکام کو تباہ کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان حرکات کے نتائج "انتہائی سنگین‘‘ ہیں اور بدوی خاندانوں کے وجود کو براہ راست خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
مخماس کے شمال سےلے کر واد النار تک پھیلے ہوئے یہ بدوی دیہات آئے روز بڑھتے ہوئے صہیونی حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے، خدمات اور سہولیات سے محرومی کے ساتھ زمینوں اور املاک پر قبضے کے واقعات شامل ہیں۔ آباد کار روزانہ بنیاد پر حملے کر رہے ہیں، جن میں فلسطینی خاندانوں پر یلغار، پانی کی لائنوں کی کٹائی، مویشیوں کی چوری اور گندم و جو کی فصلوں کی تباہی نمایاں ہیں۔
ان بستیوں کو 21 استعماری چراگاہی چوکیوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے جو مقامی فلسطینیوں کو اپنی قدرتی چراگاہوں تک رسائی سے روکنے کے لیے دباؤ کے اوزار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ پانی کی شدید قلت کے باعث وادی سنیسل اور وادِ اعوج جیسی بستیاں ایک مکعب میٹر پانی 10 شیکل میں خریدنے پر مجبور ہیں جو عام نرخ سے دوگنا ہے۔ یہ پالیسی ان بدوی خاندانوں کو معاشی طور پر توڑ کر بے دخلی پر مجبور کرنے کا ہتھکنڈہ ہے۔
تباہ ہوتی ہوئی معیشت اور گھٹتی زندگی
آباد کاروں کی مسلسل یلغار اور قابض اسرائیلی پابندیوں نے ان بستیوں میں زندگی کا پورا ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے۔ چرواہے اپنی چراگاہوں تک نہیں پہنچ سکتے اور بدوی خاندان اپنی بڑی تعداد میں مویشیوں اور زرعی ملکیت سے محروم ہو چکے ہیں۔
قابض انتظامیہ نے فلسطینی اور عالمی اداروں کو بھی ان علاقوں میں کسی تعمیراتی یا ترقیاتی منصوبے کی اجازت دینے سے انکار کر رکھا ہے۔ مقصد زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کر کے سرکاری حکم ناموں کے بغیر ہی فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے۔ یہ ’’آہستہ آہستہ نگلنے‘‘ کی وہی پالیسی ہے جسے قابض اسرائیل مشرقی قدس میں مسلسل استعمال کر رہا ہے۔
گورنری کے مطابق 33 بدوی بستیاں جن کی آبادی 7 ہزار سے زائد ہے فلسطینی وجود کا بنیادی حصہ ہیں۔ یہ بستیاں گریٹر اسرائیل کی جانب سے پیش کیے گئے ’’القدس الکبریٰ‘‘ اور (E1) منصوبوں کا مرکزی ہدف ہیں جن کے ذریعے القدس کو اپنے مشرقی ماحول سے کاٹ کر شمالی اور جنوبی غرب اردن کے جغرافیائی تعلق کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گورنری نے فوری حکومتی اور عوامی اقدام کی اپیل کی ہے، جس میں زراعت اور گلہ بانی کے شعبے کی مدد، چارہ مہیا کرنا، پانی کے بلوں میں رعایت، حفاظتی کمیٹیوں کا قیام، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع اور ان علاقائی بستیوں تک سرکاری و عوامی وفود کی باقاعدہ رسائی شامل ہے تاکہ قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی تنہائی کو توڑا جا سکے۔
ساتھ ہی بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے فوری مداخلت کی اپیل کی گئی ہے تاکہ یہ بستیاں محفوظ رہ سکیں اور قابض اسرائیل کو اپنی قانونی ذمہ داریوں کا پابند کیا جا سکے۔
بدوی بستیاں کہاں کہاں ہیں؟
البيدرآرگنائزیشن کے عمومی نگراں حسن ملیحات کے مطابق القدس کے آس پاس 46 بدوی بستیاں پھیلی ہوئی ہیں، جو شمال، مشرق اور جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ مشرقی علاقوں میں جبل البابا، وادی الحوض اور وادی الجمل شامل ہیں جنہیں حالیہ ہفتوں میں کئی انخلا نوٹس جاری ہو چکے ہیں۔
جنوب مشرق میں ابو ديس، العيزریہ اور السواحرہ الشرقيہ کے گرد وادی ابو ہندی، ابو نوار، الجبل اور ہذالین جیسی بستیاں شامل ہیں جہاں بدوی اور سواحری خاندان آباد ہیں۔
بستیوں کی سب سے بڑی تعداد القدس اریحا شاہراہ کے دونوں جانب پھیلی ہوئی ہے، جہاں الخان الاحمر سب سے زیادہ نشانے پر ہے۔ اس کے گرد حالیہ دنوں میں تین نئی چراگاہی چوکیوں کی تعمیر کی گئی ہے جن کا مقصد بدوی خاندانوں کے رزق پر حملہ کرنا ہے۔
حسن ملیحات کے مطابق حَزما کے قریب شمال مشرقی القدس میں بھی کئی بستیاں موجود ہیں۔ اسی طرح بیت حنینا اور بير نبالا کے درمیان شمال مغرب میں تقریباً 100 خاندانوں پر مشتمل بستیاں قائم ہیں جنہیں حال ہی میں خالی کرنے کے نوٹس ملے ہیں۔ العويضات کی بستی اور الجيب کے وسیع علاقے میں موجود دیگر بستیاں بھی براہ راست خطرے کی زد میں ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ استعماری حملے ’’زمینی حقیقت کو دوگنا سفاک‘‘ بنا رہے ہیں، آباد کار روزانہ حملے کرتے ہیں، پانی کاٹتے ہیں، مویشی چراتے ہیں اور فصلیں تباہ کرتے ہیں۔ معالیہ ادومیم، کیدار اور حاجز الکونٹینر کے قریب نئی بستیوں کے ذریعے اس دباؤ کو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔
نقطۂ عدمِ واپسی
ان کا کہنا ہے کہ انخلا نوٹسوں کے قانونی تعاقب کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ معاملہ ’’شروع سے آخر تک سیاسی‘‘ ہے۔ قابض اسرائیل تمام زمینوں کو ’’ریاستی زمین‘‘ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ مکمل طور پر قبضے کے زیر اثر ہیں۔
ملیحات بتاتے ہیں کہ غزہ پر مسلط جنگ سے قبل ان بستیوں کی تعداد 56 سے زیادہ تھی مگر 7 اکتوبر2023 ءکے بعد آباد کاروں کی بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے نتیجے میں 10 سے زائد بستیاں خالی کرا لی گئیں۔ ان میں پچھلے سال کے آغاز میں خالی کرائی گئی البقعہ اور مستوطنة راموت کے قریب کی بستیاں شامل ہیں۔
وہ زور دیتے ہیں کہ ضروری ہے کہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے اور بین الاقوامی قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔
منظمة البيدر کی گذشتہ ماہ جاری رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بدوی بستیوں پر یہ یلغار فلسطینی سیاسی مستقبل کے لیے ’’نقطۂ عدمِ واپسی‘‘ بن چکی ہے۔ معالیہ ادومیم کو القدس سے عناتا، حزما، جبع اور بدوی علاقوں کے ذریعے جوڑنے سے غرب اردن کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے فلسطینی ریاست کے قیام کی امید کو عملاً تباہ کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیل استعماری سرگرمیوں کے ذریعے فلسطینیوں کا زمینوں تک رسائی روک رہا ہے، انہیں ’’ریاستی زمین‘‘ یا ’’فوجی تربیتی زون‘‘ قرار دے کر وسیع رقبے چھین رہا ہے۔ غیر مجاز تعمیر کے بہانے گھروں کی مسماری کی لہر اس کی تدریجی جبری بے دخلی کی حکمت عملی کا حصہ ہے جو چوتھے جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔
البيدر تنظیم نے زور دیا ہے کہ استعماری چوکیوں کے (E1) سے تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے میدانی نقشوں کو اپڈیٹ کیا جائے۔ مشرقی القدس میں استعماری توسیع کو فوری طور پر روکنے کے لیے عالمی سطح پر دباؤ ڈالا جائے، بدوی آبادیوں کو قانونی اور انسانی تحفظ فراہم کیا جائے، سنہ2024 کی عالمی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے کو فعال کیا جائے اور قابض اسرائیل کے استعماری منصوبے میں شامل فریقوں پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے عالمی دباؤ بڑھایا جائے۔