غزہ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
غزہ کی کم سن بچی مریم ابراہیم نے اپنی نصف کھوپڑی کے غیر محفوظ حالت کے ساتھ چھ ماہ گزارے۔ یہ اُن دردناک مہینوں کی کہانی ہے جن میں اس کی نجات اُس راہداری پر لٹکی رہی جو قابض اسرائیل نے مسلسل بند رکھ رکھی تھی۔
غزہ کی معصوم مریم ابراہیم اپنے گھر کے قریب قابض اسرائیل کے داغے گئے ایک راکٹ کے شیلوں کا شکار ہوئی۔ راکٹ کے پھٹنے سے اُڑنے والا ایک مہلک شل اُس کی کھوپڑی میں پیوست ہوگیا اور وہ شدید زخمی حالت میں غزہ سے اردن منتقل کی گئی جہاں انتہائی پیچیدہ سرجری نے اس کی جان بچائی۔
دس اکتوبر سنہ 2025ءکو اعلان کردہ جنگ بندی کے بعد قابض اسرائیل نے چند سو شدید زخمی فلسطینیوں کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ 12 سالہ مریم بھی انہی خوش نصیب مگر غم آلود ناموں میں شامل تھی جنہیں زندگی کی ایک آخری امید ملی۔
اردن کے دارالحکومت عمان کے ایک ہسپتال میں مریم اپنے بستر پر بیٹھ کر ویڈیو کال میں اپنے والد کو مسکرا کر کہتی ہے:
میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟
یہ مناظر عالمی خبر رساں ادارے سکائی نیوز نے رپورٹ کیے۔
مریم کو لگنے والے شیل نے اس کی کھوپڑی میں بڑا شگاف ڈال دیا تھا جس کے نتیجے میں شدید دماغی نقصان ہوا۔ ڈاکٹروں کو مجبوراً اس کے سر کے بائیں اگلے حصے کی ہڈی نکالنی پڑی۔ کئی آپریشنز کے بعد اُس کا چہرہ تک بدل گیا۔
غزہ چھوڑنے سے پہلے مریم شدید درد، وقفے وقفے سے آنے والے تشنج کے دوروں اور خطرناک حد تک بڑھتے بخار میں مبتلا تھی۔ اس کے دماغ کو ایسے آپریشن اور ترمیمی جراحی کی ضرورت تھی جو محصور اور تباہ شدہ غزہ میں ممکن نہ تھی۔
سکائی نیوز کے مطابق مریم کی روانگی ایک نادر استثنا تھی۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق تقریباً 16500 ایسے مریض ہیں جنہیں غزہ سے باہر فوری علاج درکار ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق 13 اکتوبر سے 26 نومبر سنہ 2025 کے درمیان صرف 217 مریض غزہ سے بیرون ملک علاج کے لیے نکل سکے۔ قابض اسرائیل کی حکومت کے رابطہ دفتر کے مطابق بعد میں مزید 72 مریض اور اُن کے رفقا کو اردن منتقل کیا گیا جبکہ ہزاروں مریض آج بھی اسی اُمید میں بیٹھے ہیں۔
بمباری سے بچ جانے اور کھوپڑی کے ٹکڑے نکالنے کے بعد مریم کا اگلا امتحان اُس اجازت نامے کا تھا جو اسے ایک اور ضروری آپریشن کے لیے غزہ سے باہر لے جاتا۔ لیکن اس اجازت کی راہ میں چھ ماہ کی اذیت ناک انتظار نے اس کے دماغ کو بغیر حفاظت کے ساتھ خطرات کے حوالے کیے رکھا۔ معمولی ٹھوکر بھی اس کی اعصابی کارکردگی کو مفلوج کر سکتی تھی۔
فلسطین چائلڈ ریلیف فنڈ جو اردن میں اس کا علاج کروا رہا ہے کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے بچوں کی صحت پر تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ ہزاروں بچے والدین سے محروم ہوئے یا مستقل معذوریوں اور صدمات کے ساتھ زندہ رہنے پر مجبور ہیں جبکہ ہسپتال اور صحت مراکز ملیامیٹ کر کے آنے والی نسلوں سے علاج کا حق چھین لیا گیا ہے۔
دوسری طرف انسانی تنظیموں کو طبی انخلا کی کوششوں میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ غیر ملکی ڈاکٹر بھی غزہ داخل نہ ہو سکے جن میں دو برطانوی سرجن بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر ویکٹوریا روز جو تنظیم ’’IDEALS‘‘ سے وابستہ ہیں کہتی ہیں کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق سنہ 2025 میں صرف 47 فیصد ایمرجنسی میڈیکل ٹیمیں غزہ پہنچ سکیں۔
ان حالات میں قابض اسرائیل کی جانب سے مقامی ڈاکٹروں کی بڑی تعداد کو گرفتار کرنے اور کئی کے لاپتا ہونے نے باقی ماندہ طبی عملے پر بوجھ کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
مریم کی حالت عالمی سطح پر تب نمایاں ہوئی جب معروف امریکی معلمہ راشل گریفن اکورسو جو سوشل میڈیا پر ’’مس راشل‘‘ کے نام سے مشہور ہیں نے انسٹاگرام پر اس سے رابطہ کیا۔ مریم نے اپنے بدلتے ہوئے چہرے کی وجہ سے ہونے والی توہین آمیز رویوں کا ذکر کیا تھا جس نے دنیا کی توجہ اس معصوم بچی پر مرکوز کر دی۔
مریم کا گھرانہ جانتا ہے کہ اسے ملنے والی اس درجے کی طبی سہولت محاصرے زدہ غزہ میں کسی معجزے سے کم نہیں مگر انہیں یہ خوف بھی ہے کہ علاج مکمل ہونے کے بعد وہ جس ماحول میں لوٹے گی وہ پہلے سے زیادہ غیر یقینی اور کٹھن ہوگا۔