غزہ ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
غزہ کے دشتِ ویرانی میں اس رات موسمِ سرما کا زہر پوری شدت سے پھیلا ہوا تھا۔ آسمان سے بارش نہیں اتر رہی تھی بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان نے خود کو پھاڑ کر غم کے آنسوؤں کی صورت زمین پر بہا دیا ہو۔
اس تباہ حال منظر میں دیر البلح کے مغرب میں ایک خیمہ کھڑا تھا جو گویا بارش کے ہر قطرے سے التجا کر رہا تھا کہ ذرا ٹھہر جا، ذرا رک جا، مگر بارش بے رحم تھی۔
اسی خیمے میں محمد ابو سمک اور اس کا خاندان بیٹھا تھا۔ ایک پھٹی مٹی ہوئی چادر، ٹھنڈی مٹی کی نمی، ہڈیوں میں اترتی وحشی ہوا اور اوپر سے بوچھاڑ جو تیزاب کی طرح جسموں میں سرایت کر رہی تھی۔ یہ خیمہ نہیں تھا بے بسی کا مزار تھا۔
محمد عمر تقریباً چالیس برس ہے، اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ہمراہ اس خیمے میں لرزتے بیٹھے تھے۔
بارش چھت سے نہیں ٹپک رہی تھی بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے قابض اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ خود آسمان سے ٹپک ٹپک کر انہیں گھیر رہی ہو۔
یہ طوفانی بارش گویا کہہ رہی ہو”میں نے تمہارا گھر چھینا، حرارت چھینی، پناہ چھینی، اب یہ سردی بھی تمہیں چین نہیں لینے دے گی”۔
جنگ سے پہلے ان کی زندگی کتنی حسین تھی۔
ابراج القسطل کے مشرق میں ان کا چھوٹا مگر پُر سکون فلیٹ، سردیوں کی راتیں جن میں ہیٹر کی سرسراہٹ بچوں کے قہقہوں سے مل کر ایک ایسی موسیقی بناتی تھی جو دل کو نرم کر دیتی تھی۔ گھر کی ہر دیوار محبت سے سانس لیتی تھی۔ ہر زاویے میں امن کا چراغ جلتا تھا۔
پھر قابض اسرائیل کی بمباری نے یہ سب خاک میں ملا دیا۔ فلیٹ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ یادیں، پہچان، سکون سب کچھ ملبے کے نیچے دفن ہو گیا۔
جو گھر کبھی پناہ تھا آج قبر کی طرح خاموش ہے۔
اب یہ خاندان ایک ایسے خیمے میں رہ رہا ہے جو بارش کے سامنے کاغذ سے زیادہ کمزور ہے۔
پانی ہر دراڑ سے رس کر اندر آتا ہے اور اس خاندان کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے، گویا انہیں یاد دلاتا رہتا ہو "تم بے گھر ہو۔ تم بے یار و مددگار ہو۔ دنیا تمہیں دیکھ رہی ہے… مگر خاموش ہے”۔
محمد جب اپنے بچوں کو اپنے گرد سہمے دیکھتا ہے تو اس کا دل سینے میں کانپ اٹھتا ہے۔بارش کی جلاد بوندوں کے بیچ وہ دھیمی آواز میں کہتا ہے
"ہر رات جب بارش برستی ہے تو مجھے وہ گھر یاد آتا ہے۔ وہ گرمی دینے والے ہیٹر کی حرارت،وہ گرم فضا وہ پرسکون زندگی۔
بچوں کو کیسے بتاؤں کہ اب وہ گھر نہیں رہا ہمیں اسی حال میں جینا ہے مگر صبر کا دامن نہیں چھوڑ سکتے”۔
اس کی اہلیہ اپنی ننھی بیٹی رہف کو سینے سے چمٹائے بیٹھی ہے۔ اپنی تھکی مسکراہٹ میں چھپائے ہوئے وہ کہتی ہے
"جب بچوں کو سردی سے کانپتے دیکھتی ہوں تو دل چیر جاتا ہے۔ میں چاہتی ہوں ہنسیں، کھیلیں، بھول جائیں کہ باہر طوفان ہے لیکن ماں کا دل تو ہر بار ٹوٹتا ہے”۔
نائلہ جو اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے، سردی سے کانپتی آواز میں مگر مضبوط لہجے میں کہتی ہے
"مجھے بہت سردی لگتی ہے،مگر میں اپنے بھائی بہنوں کو ہنساتی ہوں تاکہ وہ زیادہ اداس نہ ہوں”۔
قصی اکلوتا بیٹا لرزتے بدن کے ساتھ بھی مسکراہٹ چہرے پر سجا لیتا ہے "مجھے بارش پسند ہےمگر ہمارا پرانا گھر بہت اچھا تھا۔ وہاں ہیٹر کے پاس بیٹھ کر گرم ہو جاتا تھا”۔
محمد اپنے بچوں کی طرف دیکھ کر اندر سے ٹوٹ کر بھی ہمت جمع کرتا ہے”یہ بچوں کی ہنسی ہے جو میری ہمت بن جاتی ہے”۔
یہی مجھے گرنے نہیں دیتی۔ یہی مجھے سکھاتی ہے کہ جنگ سب کچھ چھین سکتی ہے مگر امید نہیں”۔
وہ ذائقے، وہ خوشبوئیں، وہ یادیں جو کبھی ان کے گھر میں آباد تھیں اب فقط دل کے خرمن میں سلگتی چنگاریاں ہیں۔
امِ قصی کہتی ہیں کہ "کبھی کچھ گرم بنانے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ بچوں کو محسوس ہو کہ زندگی رک نہیں گئی”۔
چاہتی ہوں ان کا دل ٹوٹ نہ جائے، چاہتی ہوں ان کی مسکراہٹ بچی رہے”۔
بارش اور سردی انسان کے جسم کو تو شکنجہ بنا دیتی ہیں مگر خواب قتل نہیں کرتیں۔ محمد کی آنکھوں میں اب بھی امید کی دھیمی روشنی جل رہی ہے
گھر تباہ ہو گیا مگر امید زندہ ہے۔ ہیٹر بجھ گئے مگر حرارت واپس آئے گی۔ ہم پھر ہنسیں گے، پھر جئیں گے، پھر اپنا گھر بنائیں گے۔یہ بچے ہی میری قوت ہیں”۔
نائلہ خاموشی توڑ کر دھیرے سے کہتی ہے کہ”اگر دنیا بارش اور سردی سے بھر جائے تب بھی ہم ساتھ ہیں۔ ہم ہنس سکتے ہیں، کھیل سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کر سکتے ہیں”۔
جب بارش لمحوں کے لیے تھمتی ہے تو محمد اور اس کی اہلیہ بچوں کو خیمے میں کھیلتا دیکھ کر ایک ایسی مسکراہٹ بانٹتے ہیں جو دکھ سے بھی بھری ہے اور امید سے بھی روشن۔ وہ کہتے ہیں۔ یہ بچے ہمارے وجود کی بنیاد ہیں۔ہم رکیں گے نہیں۔ ہم اپنا گھر دوبارہ بنائیں گے۔چاہے راستہ کانٹوں سے بھرا ہو، چاہے دنیا خاموش رہے”۔
یہ کہانی ایک بے گھر فلسطینی خاندان کی محض داستان نہیں۔یہ درد کی گواہی ہے۔یہ صبر کی معراج ہے۔یہ ایک بے بس ماں اور لاچار باپ کے دل کا نوحہ ہے۔
یہ باپ کی خاموش چیخ ہے۔ یہ دنیا کی بے حسی کو للکارتی ہے۔یہ اس امید کی زندہ مثال ہے جو نہ قابض اسرائیل کے بم مار سکتے ہیں نہ موسمِ سرما کی سفاکیت اسے بجھا سکتی ہے۔