روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
سلامتی کونسل نے اکثریتی ووٹوں سے امریکہ کا پیش کردہ منصوبہ منظور کر لیا جس کا عنوان غزہ پر قابض اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کا اختتام ہے۔ دوسری جانب حماس نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ غزہ کی پٹی پر بین الاقوامی وصایت کا نظام تھوپتا ہے جسے فلسطینی عوام ان کی تمام قوتیں اور دھڑے یکسر مسترد کرتے ہیں۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں تیرہ رکن ممالک نے منصوبے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ روس اور چین نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔
قرارداد 2803 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ بیس نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کیا گیا جو سنہ 2025ء کے انتیس ستمبر کو جاری کیا گیا تھا اور جسے ویب پورٹل ’اقوام متحدہ‘ نے شائع کیا تھا۔
سلامتی کونسل نے مطالبہ کیا کہ اس منصوبے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے اور جنگ بندی کو برقرار رکھا جائے۔
اس فیصلے میں غزہ کی تعمیر نو کی نگرانی کے لیے قائم کیے جانے والے ’مجلس السلام‘ (پیس کونسل) کو خوش آمدید کہا گیا ہے جو فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات مکمل ہونے تک امور کی نگرانی کرے گا۔ فیصلے کے مطابق سنہ 2027 کے آخر تک مجلس السلام کی مدت اور غزہ میں بین الاقوامی سول اور سکیورٹی موجودگی کا خاتمہ ہوگا۔
فیصلے میں اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کا تکمیل پذیر ہونا اور تعمیر نو میں پیش رفت حالات کو فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور فلسطینی ریاست کے قیام سے ہم آہنگ بنا سکتا ہے۔
مشترکہ فیصلے میں غزہ کے لیے امداد کی بحالی کو ناگزیر قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ امداد مجلس السلام کے ساتھ تعاون کے تحت صرف پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہو۔
فیصلے میں کہا گیا کہ تمام عملیاتی ادارے مجلس السلام کے تابع ہوں گے اور انہیں رضاکارانہ مالی معاونت اور عطیہ کنندگان سے فنڈ فراہم کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں عالمی بینک سمیت مالیاتی اداروں سے بھی غزہ کی تعمیر نو میں تعاون اور ایک خصوصی فنڈ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔
فیصلے کے مطابق غزہ میں ایک عارضی بین الاقوامی استحکام فورس قائم کی جائے گی جو متحدہ کمان کے تحت مصر اور قابض اسرائیل کے ساتھ رابطے میں کام کرے گی۔ یہ فورس غزہ کو غیر مسلح کرنے، عام شہریوں کے تحفظ، فلسطینی پولیس کی تربیت اور غزہ میں انسانی راہداریوں کی سکیورٹی میں مدد کرے گی۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ استحکام فورس کے اثر و نفوذ میں اضافے کے ساتھ قابض اسرائیل کا فوجی انخلا متفقہ معیارات اور طے شدہ ٹائم لائن کے مطابق ہوگا۔
تمام ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو مجلس السلام اور غزہ میں استحکام فورس کو مالی و انتظامی تعاون اور عملہ فراہم کرنے کی دعوت دی گئی۔
مزید کہا گیا کہ مجلس السلام ہر چھ ماہ بعد سلامتی کونسل کو غزہ میں ہونے والی پیش رفت کی تحریری رپورٹ پیش کرے۔
فیصلہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ شریک ممالک اور مجلس السلام کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ غزہ کی پٹی میں عبوری حکومت کے انتظام کے لیے بین الاقوامی اختیارات کی حامل عملیاتی اکائیاں تشکیل دیں۔
حماس کا موقف
اپنے ردعمل میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا کہ سلامتی کونسل کا یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے سیاسی اور انسانی حقوق خصوصاً غزہ کے عوام کی حقیقی امنگوں اور تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ غزہ کی پٹی پر بین الاقوامی وصایت مسلط کرتا ہے جسے فلسطینی عوام، ان کی تمام قوتیں اور فصائل یک زبان ہو کر مسترد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ ان اہداف کے حصول کا راستہ کھولتا ہے جو قابض اسرائیل اپنی نسل کشی پر مبنی وحشیانہ جنگ کے ذریعے حاصل نہ کر سکا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ سلامتی کونسل کا یہ فیصلہ غزہ کو باقی فلسطینی جغرافیہ سے کاٹنے اور نئی حقیقتیں مسلط کرنے کی کوشش ہے۔
حماس نے واضح کیا کہ غزہ میں بین الاقوامی قوت کو وہ ذمہ داریاں اور کام سونپنا جن میں مزاحمت کا غیر مسلح کیا جانا شامل ہے نہ صرف اس قوت کی غیر جانب داری کو ختم کرتا ہے بلکہ اسے تنازعے میں قابض اسرائیل کے حق میں براہ راست فریق بنا دیتا ہے۔