فیلڈ معلومات کے مطابق قابض اسرائیلی انٹیلی جنس اس دوران مختلف تکنیکی اور زمینی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنے جاسوسی نیٹ ورک کو پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔
فلسطینی مزاحمتی سکیورٹی ادارے کے ذیلی پلیٹ فارم "الحارس” نے جمعہ کی شب ایک اہم انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی خفیہ ادارے حالیہ جزوی سکون اور سکیورٹی کے حوالے سے بعض مجاہدین کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر ان کی صفوں میں دراڑ ڈالنے، ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے اور انفرادی کمزوریوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فیلڈ معلومات کے مطابق قابض اسرائیلی انٹیلی جنس اس دوران مختلف تکنیکی اور زمینی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنے جاسوسی نیٹ ورک کو پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ اس عارضی سکون کی کیفیت اور موبائل فونز و سماجی رابطوں کے غیر محتاط استعمال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔
"الحارس” پلیٹ فارم نے بتایا کہ گذشتہ چند دنوں کے دوران مزاحمتی کارکنوں کی نگرانی کے لیے ڈرونز، خفیہ سماعتی آلات اور دیگر جدید جاسوسی ذرائع کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قابض اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ نئے ایجنٹ بھرتی کرے جو انسانی ہمدردی یا سماجی تعلقات کے پردے میں سرگرم ہوں۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ جنگ بندی کا مطلب ہرگز امن نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک نہایت حساس مرحلہ ہے جس میں قابض اسرائیل ان معلومات کے حصول کی کوشش کرتا ہے جو اسے معرکہ آرائی کے دوران حاصل نہیں ہو سکیں۔
پلیٹ فارم نے خبردار کیا کہ سکیورٹی غفلت یا نظم و ضبط میں معمولی کمی بھی اس بظاہر پُرسکون فضا کو ایک جان لیوا جال میں بدل سکتی ہے۔
"الحارس” نے زور دے کر کہا کہ مجاہدین کا سکیورٹی نظم و ضبط ہی ان کی پہلی دفاعی دیوار ہے، اس لیے انہیں جنگ بندی کے دوران زیادہ سے زیادہ احتیاط، بیداری اور چوکسی اختیار کرنی چاہیے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے امریکی اور یورپی حمایت کے ساتھ غزہ کی پٹی میں فلسطینی قوم کے خلاف بدترین نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں قتل عام، بھوک، تباہی، جبری بے دخلی اور گرفتاریوں کی لہر شامل ہے۔ قابض اسرائیل نے عالمی عدالتی احکامات اور بین الاقوامی اپیلوں کو مکمل طور پر نظرانداز کر رکھا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس نسل کشی میں اب تک 2 لاکھ 39 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ مزید 11 ہزار سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ قحط کی صورتحال نے سینکڑوں بچوں کی زندگیاں نگل لی ہیں اور غزہ کے بیشتر شہر و علاقے صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔