(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (انروا) کے میڈیا مشیر عدنان ابو حسنہ نے بتایا ہے کہ دو سال کے طویل وقفے کے بعد غزہ کی پٹی میں تقریباً 3 لاکھ فلسطینی طلبہ کے لیے تعلیمی عمل دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ قدم قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ نسل کش جنگ کے تباہ کن اثرات کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
انروا نے ہفتے کے روز اپنے سرکاری صفحے پر جاری ایک ویڈیو بیان میں اعلان کیا کہ ادارے نے جامع منصوبہ بندی کے تحت تدریسی عمل کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔
عدنان ابو حسنہ نے کہا کہ "تقریباً دس ہزار طلبہ کو کچھ مراکزِ پناہ میں تعلیم دی جائے گی جبکہ بقیہ طلبہ کے لیے آن لائن یا ورچوئل تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے”۔ ان کے مطابق تقریباً 8 ہزار اساتذہ اس نئے تعلیمی مرحلے میں خدمات انجام دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ "سالہا سال کی جنگ اور کورونا وبا کے باعث تعلیمی عمل میں رکاوٹ نے ہزاروں فلسطینی بچوں کو لکھنے اور پڑھنے کی بنیادی صلاحیتوں سے بھی محروم کر دیا ہے، اس لیے اب مزید تاخیر کسی صورت ممکن نہیں”۔
غزہ میں تعلیمی عمل سات اکتوبر سنہ2023ء سے بند تھا جب قابض اسرائیل نے غزہ پر اپنی نسل کش جنگ مسلط کی اور بیشتر سرکاری و انروا کے سکولوں کو پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ درجنوں تعلیمی ادارے مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیے گئے۔
فلسطینی وزارتِ تعلیم کے مطابق سولہ ستمبر تک قابض اسرائیلی بمباری سے غزہ میں 172 سرکاری سکول تباہ ہو چکے ہیں جبکہ 118 سکول شدید نقصان کا شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ انروا کے زیرِ انتظام 100 سے زائد سکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیل کی اس نسل کش جنگ میں 17 ہزار 711 طلبہ شہید ہوئے اور 25 ہزار 897 زخمی ہوئے۔ اسی دوران 763 اساتذہ شہید اور 3 ہزار 189 زخمی ہوئے۔
عدنان ابو حسنہ نے بتایا کہ قابض اسرائیلی حکام انروا کی جانب سے رکھی گئی بڑی مقدار میں امدادی اشیا کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔ حالانکہ انروا خوراک کی تقسیم اور 22 مرکزی طبی مراکز کے دوبارہ فعال ہونے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
انہوں نے قابض اسرائیل کی اس مجرمانہ رکاوٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "پناہ گاہوں کے لیے ضروری سامان، کمبل، سرمائی کپڑے اور ادویات جیسی بنیادی اشیا کو داخلے کی اجازت نہ دینا انسانی اقدار کے منافی ہے، جس سے غزہ میں انسانی بحران مزید سنگین ہو رہا ہے”۔
انہوں نے بتایا کہ غزہ کی 95 فیصد آبادی اپنی روزی روٹی اور بنیادی ضروریات کے لیے امداد پر منحصر ہے کیونکہ قابض اسرائیل کے محاصرے نے روزگار کے تمام ذرائع ختم کر دیے ہیں۔
ابو حسنہ نے خبردار کیا کہ "حالات نہایت خطرناک حد تک بگڑ رہے ہیں، جنگ بندی کے بعد اپنے گھروں کو لوٹنے والے لاکھوں بے گھر شہری اب کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موسمِ سرما سے قبل فوری امداد کی فراہمی ناگزیر ہے تاکہ انسانی المیہ مزید نہ بڑھے”۔