(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے دو ریاستی حل کانفرنس میں دیے گئے خطاب نے ایک وسیع بحث کو جنم دےدیا۔ اس خطاب میں ایسے نکات شامل تھے جو بہت سے فلسطینیوں کے لیے باعثِ صدمہ تھے۔ ایک طرف وہ ایک ایسے وقت میں قابض اسرائیل کو اس کی مذہبی تقریبات پر مبارکباد دے رہے تھے جب وہ فلسطینی عوام کے خلاف اجتماعی قتلِ عام اور کھلی نسل کشی میں ملوث ہے اور دوسری طرف انہوں نے مزاحمت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور فیصلہ سازی کے عمل میں اس کی شرکت کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
ایک ایسے وقت میں جب فلسطینی قوم اپنی تاریخ کے سب سے مشکل اور خونریز دور سے گزر رہی ہے یہ خطاب زخموں اور قربانیوں کی عکاسی کرنے کے بجائے سوالات اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کا باعث بن گیا۔
مزاحمت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے دوستی کے نام پر قابض اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا اور اس کے جرائم پر پردہ ڈالنا، شہداء کے خون اور قیدیوں کی تکالیف سے غداری کے مترادف ہے۔
یہ انحراف صرف الفاظ تک محدود نہیں بلکہ یہ ان برسوں پر محیط پالیسیوں کا تسلسل ہے جنہوں نے عوامی غصے کو ہوا دی۔ مشکل ترین حالات میں قابض دشمن کے ساتھ سکیورٹی تعاون جاری رکھنا، شہداء اور قیدیوں کے خاندانوں کے مالی وظائف میں کٹوتی کرنا اور تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیاں لانا جو صیہونی شرائط سے مطابقت رکھتی ہوں سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اسی لیے عوام کا ردِعمل محض ایک وقتی تنقید نہیں بلکہ اس سیاسی راستے پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار ہے جو نہ تو قومی شناخت کا محافظ ہے اور نہ ہی عوامی خواہشات کا ترجمان۔
اس خطاب کا ایک سب سے خطرناک پہلو یہ تھا کہ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پوری قوم اور تمام سیاسی حلقے اتحاد پر زور دے رہے تھے۔ لیکن عباس نے مزاحمت پر حملہ کیا اور اسے فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھنے کا اعلان کر دیاجو فلسطینی اتحاد کوکمزور کرتا ہے۔
اس کے برعکس مزاحمت نے تمام تر مشکلات کے باوجود دنیا بھر میں فلسطینی کاز کو زندہ رکھا ہے جبکہ سرکاری بیانیہ محض فرسودہ جملوں اور کھوکھلے وعدوں کی تکرار بن کر رہ گیا ہے جو کبھی عملی جامہ نہیں پہن سکے۔