(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی تحریک اسلامی جہاد کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے کہا ہے کہ غزہ میں فائر بندی کے لیے مزاحمت کو کوئی نیا منصوبہ موصول نہیں ہو ا، امریکہ اور مغرب اس جنگ کو اس وقت تک ختم نہیں کرنا چاہتے جب تک خطے میں قابض اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہر ایک فرد کو ختم نہ کر دیں چاہے وہ صرف فلسطین میں ہوں یا پورے علاقے میں۔
انہوں نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ مذاکرات نہ تو ماضی میں سنجیدہ تھے اور نہ ہی اب ہیں کیونکہ قابض اسرائیل اور امریکہ نے امریکی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کی جانب سے پیش کردہ تجاویز سے پیچھے ہٹ کر مذاکراتی وفد کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر بات کر رہا تھا۔
الہندی نے کہا کہ ویٹکوف نے خود بھی ان تجاویز سے انکار کیا جنہیں مزاحمت نے قبول کیا تھا اس لئے اس وقت افق بند نظر آ رہا ہے اور کوئی نئی تجویز موجود نہیں ۔الہندی نے کہا کہ جنگی مجرم نیتن یاہو اب پانچ عرب ممالک کے دارالحکومتوں پر بمباری کر رہا ہے اور پوری خطے کو برباد کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے جس سے قابض اسرائیل کا مجرمانہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے یہاں تک کہ اس کے مغربی اتحادی بھی غزہ میں ہونے والی کارروائیوں کو جنگی جرائم قرار دینے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ملکوں کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنا دراصل اس نسل کشی کا نتیجہ ہے جو قابض اسرائیل غزہ میں کر رہا ہے۔الہندی نے ان اعترافات کو قابض اسرائیل کی بڑی سفارتی شکست قرار دیا لیکن کہا کہ یہ مقصد نہیں بلکہ ایک مرحلہ ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ان اعترافات کو ایسے عملی اقدامات میں ڈھالا جائے جو قتل و غارتگری، تباہی اور یہودی بستیوں کے قیام کو روک سکیں۔
انہوں نے کہا کہ عرب موقف مغربی موقف سے زیادہ اہم ہے کیونکہ عدالتِ انصاف سےسزاءیافتہ جنگی مجرم نیتن یاہو عرب دنیا کے پانچ دارالحکومتوں کو نشانہ بنا چکا ہے اور پورے خطے کو اجاڑنے کے درپے ہے۔
مسئلہ نہ تو حماس ہے نہ اسلامی جہاد بلکہ ہر وہ قوت ہے جو خطے میں قابض اسرائیل کے توسیع پسند منصوبے کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ امریکہ اور مغرب نے اس جنگ کے آغاز ہی سے طے کر لیا تھا کہ وہ ہر مزاحمتی قوت کو ختم کریں گے۔
الہندی نے کہا کہ غزہ میں ہونے والی نسل کشی محض مزاحمت کو دبانے کے لیے نہیں بلکہ فلسطینی عوام کو جبری طور پر بے دخل کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔انہوں نے کہا کہ یورپ میں آزادی پسند عوام کے دباؤ نے ہی ان کی حکومتوں کو اپنے پرانے موقف بدلنے پر مجبور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے یہ نئے اقدامات اس وقت تک بامعنی نہیں جب تک وہ قابض اسرائیل کے ساتھ فوجی، اقتصادی اور سکیورٹی تعلقات پر نظرثانی کے ساتھ نہ ہوں یہ اقدامات محض عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہیں بلکہ حقیقی اور گہری پالیسی تبدیلی کا حصہ ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے ملکوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر ازسر نو غور کریں۔