• Newsletter
  • صفحہ اول
  • صفحہ اول2
جمعرات 2 اکتوبر 2025
  • Login
Roznama Quds | روزنامہ قدس
  • صفحہ اول
  • فلسطین
  • حماس
  • غزہ
  • پی ایل او
  • صیہونیزم
  • عالمی یوم القدس
  • عالمی خبریں
  • پاکستان
  • رپورٹس
  • مقالا جات
  • مکالمہ
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • فلسطین
  • حماس
  • غزہ
  • پی ایل او
  • صیہونیزم
  • عالمی یوم القدس
  • عالمی خبریں
  • پاکستان
  • رپورٹس
  • مقالا جات
  • مکالمہ
No Result
View All Result
Roznama Quds | روزنامہ قدس
No Result
View All Result
Home خاص خبریں

دو ریاستی حل نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہے

فلسطین کی تاریخ میں اس اعلامیہ کو فلسطین کے ساتھ کی جانے والی سب سے بڑی نا انصافی قرار دیا جاتا ہے۔

پیر 22-09-2025
in خاص خبریں, صیہونیزم, عالمی خبریں, غزہ, فلسطین, مقالا جات
0
دو ریاستی حل نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہے
0
SHARES
17
VIEWS

سنہ 1917ءبرطانوی استعماری حکومت کے سیکرٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور نےفلسطین کی تقسیم کے لئے جو منصوبہ حکومت برطانیہ کو پیش کیا اسے تاریخ میں اعلان بالفور یا پھر بالفور اعلامیہ کہا جاتاہے۔ فلسطین کی تاریخ میں اس اعلامیہ کو فلسطین کے ساتھ کی جانے والی سب سے بڑی نا انصافی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی اعلامیہ کی بنیاد پر سنہ1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کردہ قرار داد نمبر 181میں بھی فلسطین کی تقسم کی منظوری دی گئی۔ یہاں یہ بات یاد رہنی چاہئیے کہ یہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کہ جو آج ایک مرتبہ پھر فلسطین کے لئے دو ریاستی حل کو مستحکم کرنے پر تلی ہوئی ہے ماضی میں فلسطین کی تقسیم اور ناانصافی کو انجام دے چکی ہے۔ یہاں قارئین کی معلومات کے لئے یہ بات بھی ذہن نشین رکھی جائے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرا داد قانونی طور پر بائنڈنگ نہیں ہوتی یعنی اس پر عمل کرنا لازم نہیں ہوتا لیکن فلسطین کی تقسیم کے معاملہ پر جنرل اسمبلی کی قرار داد کو تمام تر امور سے زیادہ ترجیح دی گئی او ر اس پر عملدرآمد کر کے سنہ1948میں فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو قائم کر دیا گیا۔ آج پھر یہی اقوام متحدہ کوئی آٹھ دہائیاں مکمل ہونے کے بعد فلسطین کے ساتھ انصاف کرنے کی بجائے اپنی پرانے گناہ کو از سر نو تجدید کر رہی ہے اور ہمیں دو ریاستی حل کی گونج اقوام متحدہ یعنی کفن چوروں کی انجمن سے سنائی دے رہی ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کی تاریخ ایک صدی سے زائد کا عرصہ رکھتی ہے اور اس عرصہ میں سنہ1948کے بعد سے مسلسل فلسطینی عوام پر اپنی ہی زمین تنگ کی جاتی رہی ہے اور صیہونی آباد کاری کے ذریعہ اب تک 78فیصد سے زیادہ فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو قابض کیا گیا ہے۔ فلسطینی عوام اپنی زمین، حقِ واپسی اور قومی خودمختاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں اور مغربی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ادارے سب کے سب فلسطین کے مسئلے کا حل دو ریاستی حل (Two-State Solution) تجویز کرتے آئے ہیں۔ ایسا ہی آج بھی کیا جا رہاہے۔ بظاہر یہ تجویز انصاف اور امن کا راستہ دکھائی دیتی ہے، لیکن درحقیقت یہ فلسطینی کاز کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرتی ہے اورغاصب صہیونی ریاست کے ناجائز وجود کو مزید مضبوط بناتی ہے۔

دو ریاستی حل کا بنیادی خاکہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی موجودہ ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ یعنی اس حل میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے ایک الگ ریاست قائم کی جائے جس کی سرحدیں 1967 کی جنگ سے پہلے کی حدود کے مطابق ہوں۔ حالانکہ یہ خود ایک غیر منصفانہ تجویز ہےکہ آپ کسی قوم اور ملت کو کہتے ہیں کہ اس کو اپنے ہی گھر میں اور وطن میں ایک محدود علاقہ پر ریاست قائم کرنا ہوگی لیکن عالمی ضمیر اور عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے حکمران یہ کہنے سے کتراتے ہیں کہ جو غاصب و قابض ہے اسے واپس ہونا چاہئیے اور قبضہ ختم کرنا چاہئیے۔ اسی طرح دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ القدس کو تقسیم کر کے مغربی القدس اسرائیل کے پاس اور مشرقی القدس فلسطین کے پاس رہے۔ یہ ایک اور بڑی خیانت اور دھوکہ ہے جو فلسطینی عوام کے ساتھ دو ریاستی حل کے نام پر کیا جا رہاہے۔ اس سے بڑھ کر فلسطین کے اپنے باشندوں کو اپنے ہی وطن واپس آنے سے محروم کرنے کا ہدف بھی اسی دو ریاستی حل میں موجود ہے۔ یعنی فلسطینی پناہ گزینوں کے حقِ واپسی کو محدود یا ختم کر دیا جائےگا۔

دنیا کی تمام حکومتیں جو مسئلہ فلسطین کے لئے دو ریاستی حل کو تجویز کر رہی ہیں وہ سب یہ باتیں اچھی طرح جانتی ہیں اور یہ بھی جانتی ہیں کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے قیام اور اس کے قبضے کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔ فلسطین کی 78 فیصد زمین جو 1948 میں غصب کی گئی، وہ ہمیشہ کے لیے اسرائیل کے قبضے میں رہے گی۔ اور یہ فلسطینی عوام کے تمام حقوق پر کھلم کھلا ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ کئی ایک مسلمان حکومتیں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی میں ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ فلسطینی عوام کے تاریخی اور دینی حق کی نفی ہےجسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ کے لئے دو ریاستی حل کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ 1948 اور 1967 میں نکالے گئے لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حقِ واپسی کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اسی وجہ سے اس حل میں فلسطینی عوام کے حق واپسی کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی اپنی اصل زمین اور گھروں میں کبھی واپس نہیں جا سکیں گے۔

دو ریاستی حل کی حمایت کرنے والی حکومتوں کو یہ بات بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ دو ریاستی حل کے نتیجہ میں جو ریاست فلسطینیوں کو دی جائے گی وہ نہ تو عسکری طور پر طاقتور ہوگی اور نہ معاشی طور پر خود کفیل۔ یعنی نہ تو انہیں فوج رکھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اپنی کرنسی چھاپنے کی۔ تو ایسے ادھوری ریاست کس طرح ایک ریاست کا درجہ پا سکتی ہے؟ اسی طرح دو ریاستی حل کے نتیجہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل پانی، تجارتی راستے اور فضائی حدود پر قابض رہے گی، یوں فلسطینی ریاست ایک کمزور پروٹیکٹوریٹ (Protectorate) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گی۔
القدس شریف جو کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کا مقدس مقام ہے۔ دو ریاستی حل قدس شریف کو بھی تقسیم کرتا ہے جبکہ فلسطینی موقف یہ ہے کہ پورا قدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ تقسیم کی صورت میں صہیونی قبضہ مسجد اقصیٰ اور مقدسات پر مزید بڑھ جائے گا۔ دوریاستی حل کا ایک اور مقصد فلسطین میں موجود فلسطینیوں کی مزاحمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے۔ دو ریاستی حل جو کہ خاص طور پر حالیہ دنوں میں فرانس اور سعودی عرب کی حکومتوں نے 29جولائی سنہ2025کو ہونے والی نیو یارک کانفرنس میں اعلان کیا ہے اس کے ذریعہ فلسطینی مزاحمت کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ نیو یارک اعلامیہ میں بھی حماس کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت کی کاروائیوں کو بھی دہشت گردی قرار دیا گیا ہے۔ اب اسی نیو یارک اعلامیہ کی بنیاد پر ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر دو ریاستی حل کو پیش کیا گیا ہے۔ فلسطین کے عوام نے دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا ہے۔ جو بھی فیصلہ فلسطینی عوام کی مرضی کے خلاف ہوگا وہ کبھی پائیدار نہیں ہو سکتا۔ چاہے بالفور اعلامیہ ہو، چاہے اس کے بعد آنے والی قراردادیں ہوں یا پھر صدی کی ڈیل، ابراھیمی معاہدے اور اسی طرح نیو یارک اعلامیہ یہ سب فلسطینی عوام کی خواہشات اور ان کے حقوق کے بر خلاف ہیں تاہم اس طرح کا حل غیر منصفانہ اور ظلم پر مبنی ہے۔ اگر فلسطینی قوم اس دو ریاستی حل کو تسلیم کرتی ہے تو وہ جانتے ہیں کہ پھر پورے فلسطین میں صیہونی آباد کاری ہو گی اور رفتہ رفتہ وہ تمام فلسطین سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ دراصل دو ریاستی حل اسرائیل کی غیر قانونی حیثیت کو قانونی حیثیت دینے کی ایک گھنائونی سازش ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کا واحد اور منصفانہ حل صرف اور صرف ایک فلسطینی ریاست ہے جس کا دارلحکومت القدس شریف ہو۔ یہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہو جو اپنا فیصلہ خود اور اپنی عوام کے ساتھ کرے۔ اسی حل کے ذریعہ ہی لاکھوں مہاجرین فلسطینی اپنے گھروں اور وطن کو واپس لوٹ سکتے ہیں اور فلسطین کا مستقبل کا فیصلہ بھی فلسطینی عوام اپنی رائے اور ریفرنڈم سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام تر راستے اور حل غیر منصفانہ ہونے کے ساتھ ساتھ نا قابل قبول اور نا قابل عمل ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مر یم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

Tags: اقوام متحدہدو ریاستی حلصہیونی فوجصیہونی ریاستفلسطیننا انصافی
ShareTweetSendSend

ٹوئیٹر پر فالو کریں

Follow @roznamaquds Tweets by roznamaquds

© 2019 Roznama Quds Developed By Team Roznama Quds.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • Newsletter
  • صفحہ اول
  • صفحہ اول2

© 2019 Roznama Quds Developed By Team Roznama Quds.