(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) دنیا کے سولہ ممالک کے وزرائے خارجہ نے "عالمی قافلہ استقامت” کے شرکاء کی حفاظت کے حوالے سے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ قافلہ مختلف ممالک کے شہریوں پر مشتمل ایک سول سوسائٹی کی مشترکہ کوشش ہے، جس کا مقصد قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ غیر منصفانہ محاصرے کو ختم کرنا اور وہاں محصور فلسطینیوں تک فوری انسانی امداد پہنچانا ہے۔
ان ممالک میں قطر، بنگلہ دیش، برازیل، کولمبیا، انڈونیشیا، آئرلینڈ، لیبیا، ملائیشیا، مالدیپ، میکسیکو، پاکستان، سلطنتِ عمان، سلووینیا، جنوبی افریقہ، اسپین اور ترکیہ شامل ہیں۔
وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں وضاحت کی کہ یہ قافلہ دراصل فلسطینی عوام کی فوری انسانی ضروریات کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے ایک عالمی پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومتیں بھی اسی مقصد کی حمایت کرتی ہیں کہ امن قائم کیا جائے اور غزہ کے عوام کو فوری طور پر انسانی امداد فراہم کی جائے۔
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دستخط کرنے والے تمام ممالک عالمی قوانین کے احترام کے پابند ہیں۔ انہوں نے تمام متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ قافلے کے خلاف کسی بھی غیر قانونی یا پرتشدد اقدام سے گریز کریں اور بین الاقوامی و انسانی قوانین کا مکمل احترام یقینی بنائیں۔
وزرائے خارجہ نے سختی سے متنبہ کیا کہ اگر قافلے کے شرکاء کے خلاف انسانی حقوق یا بین الاقوامی قانون کی کوئی بھی خلاف ورزی ہوئی خواہ وہ بین الاقوامی پانیوں میں جہازوں پر حملہ ہو یا غیر قانونی گرفتاری تو اس کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔
عالمی قافلہ استقامت میں تقریباً پچاس جہاز شامل ہیں جو اس وقت بحیرہ روم میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ ان میں ترکیہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً پچاس کارکن بھی شامل ہیں جو اس قافلے میں سب سے بڑی تعداد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جہاز ایک ساتھ غزہ کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ اس سے قبل قابض اسرائیل انفرادی طور پر جانے والے جہازوں کو روکتا، ان پر قبضہ کرتا اور کارکنوں کو زبردستی ملک بدر کر دیتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ دو مارچ 2025 سے قابض اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ مزید سخت کر دیا ہے اور نسل کشی کی مہم کو تیز کرتے ہوئے تمام سرحدی گزرگاہیں بند کر دی ہیں تاکہ کوئی خوراک، دوا یا انسانی امداد غزہ میں داخل نہ ہو سکے۔ اس وقت ہزاروں امدادی ٹرک غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں لیکن عوام کو دانستہ طور پر قحط کی صورتحال میں دھکیلا جا رہا ہے۔