قابض اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے:اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی
قابض اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری جنگ میں کھلی نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے۔قابض اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری جنگ میں کھلی نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری جنگ میں کھلی نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ، مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے متعلق اقوام متحدہ کی آزاد بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری کی چیئرپرسن اور سابق بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جج نافی پیلے نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ "غزہ میں نسل کشی جاری ہے”۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق منگل کے روز جاری بیان میں کمیٹی نے کہا کہ قابض اسرائیلی حکام کے بیانات اس بات کا براہ راست ثبوت ہیں کہ وہ نسل کشی کے ارادے کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں۔
کمیٹی نے کہا کہ قابض اسرائیل کے صدر یتسحاق ہرزوگ، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو اور سابق وزیر دفاع یوآف گلینٹ نے کھلے عام نسل کشی پر اکسانے والے بیانات دیے اور قابض حکام نے نہ تو انہیں روکا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی۔
کمیٹی نے واضح کیا کہ غزہ میں ہونے والے یہ ہولناک جرائم براہ راست قابض اسرائیل کی اعلیٰ قیادت کی ذمہ داری ہیں۔ اس نے بتایا کہ تقریباً دو برس سے قابض اسرائیل غزہ میں ایک منظم نسل کشی کی مہم چلا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد فلسطینی قوم کو مٹانا ہے۔
رپورٹ میں قتل عام، امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے، جبری نقل مکانی اور حتیٰ کہ ایک زرخیزی مرکز کی تباہی کو نسل کشی کے ناقابل تردید شواہد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی انہی نتائج پر پہنچی ہیں۔
کمیٹی نے مزید بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج غزہ کی بنیادی ڈھانچے کو منظم طور پر تباہ کر رہی ہے اور نسل کشی کو آگے بڑھا رہی ہے۔ "ہم نے غزہ میں نسل کشی کے ارتکاب کے ساٹھ ہزار سے زائد شواہد دستاویزی شکل میں جمع کیے ہیں۔”
تحقیقاتی کمیٹی نے کہا کہ قابض اسرائیل فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اس لیے عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ غزہ پر جنگ بند کرانے، فوری امداد پہنچانے اور اس جرم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے دباؤ ڈالے۔
کمیٹی کے اراکین نے بتایا کہ انہوں نے اپنی مدت پوری کرنے کے بعد تین نومبر کو مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم پر محض اس لیے یہودی دشمنی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ ہم قابض اسرائیل کے جرائم کی تحقیقات کر رہے ہیں۔”
کمیٹی نے اعلان کیا کہ اپنی تفصیلی رپورٹ بین الاقوامی فوجداری عدالت اور دیگر عدالتی اداروں کے سامنے پیش کی جائے گی۔ اراکین کے مطابق غزہ میں شہداء اور زخمیوں کی تعداد اس صدی کے کسی بھی تنازعے سے سب سے زیادہ ہے، اور مکانات، ہسپتالوں اور جامعات کو منظم طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب قابض اسرائیل کی وزارت خارجہ نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کو "مکمل طور پر مسترد” کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ "جھوٹ پر مبنی اور حماس کے پروپیگنڈے کا حصہ” ہے، اور کمیٹی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ انکشاف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ نے 22 اگست کو پہلی مرتبہ مشرق وسطیٰ میں کسی خطے کے بارے میں باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ غزہ قحط کی لپیٹ میں ہے۔ یہ اعلان "آئی پی سی” (IPC) کے غذائی بحران سے متعلق رپورٹ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔