(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ محصور غزہ کی پٹی میں معصوم بچوں کے اندر غذائی قلت کی شرح انتہائی خوفناک انداز میں بڑھ رہی ہے۔
ادارے نے اپنے ایک پریس بیان میں بتایا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ اگست میں جن بچوں کا معائنہ کیا گیا ان میں شدید غذائی قلت کی شرح ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ماہ غزہ میں بچوں میں غذائی قلت کی مجموعی شرح بڑھ کر پانچ اشاریہ تیرہ فیصد ہوگئی جبکہ جولائی میں یہ تین اشاریہ آٹھ فیصد تھی۔
غزہ شہر میں جہاں قحط کے آثار نمایاں ہیں، غذائی قلت کا شکار بچوں کی شرح اور بھی زیادہ رہی۔ اگست میں یہ شرح انیس فیصد تک جا پہنچی جبکہ جولائی میں یہ سولہ فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے بتایا کہ اگست کے دوران غزہ شہر میں ہر پانچواں بچہ شدید غذائی قلت میں مبتلا پایا گیا جسے زندگی بچانے والی اضافی خوراک کی فوری ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ یونیسیف کچھ مزید امدادی سامان غزہ پہنچانے میں کامیاب تو ہوا، لیکن قابض اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں نے دس سے زائد غذائی مراکز کو بند کرنے پر مجبور کر دیا جس سے بچوں کی زندگیاں مزید خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
کیتھرین رسل نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ شہر اور پورے محصور علاقے میں غذائی مراکز کو تحفظ فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی بچے کو ایسی غذائی قلت کا سامنا نہیں کرنا چاہیے جس کا تدارک اور علاج ممکن ہو بشرطیکہ امداد محفوظ طریقے سے پہنچائی جا سکے۔
سرکاری اور طبی اعداد و شمار کے مطابق، اب تک غزہ میں غذائی قلت کے باعث چار سو گیارہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ایک سو بیالیس بچے شامل ہیں۔ مزید یہ کہ تقریباً چھ لاکھ پچاس ہزار بچے بھوک، غذائی قلت اور فاقہ کشی سے موت کے دہانے پر ہیں، جبکہ چالیس ہزار شیر خوار بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔