(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) ایک امریکی راہبہ نے واضح کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی پالیسیوں نے فلسطینی مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کی زندگیوں کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نقل و حرکت پر عائد پابندیاں، زمینوں پر غیر قانونی قبضہ اور صہیونی بستیوں کی تعمیر نے مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع ختم کر کے ان کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔ انہوں نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تحریک مزاحمت حماس درحقیقت ایک مزاحمتی قوت ہے جو اپنی قوم اور سرزمین کے دفاع کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
یہ بات امریکی راہبہ مدر آگابیا سٹیفانوپولوس جو 1996 سے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے قصبے بیت عنیاہ میں مقیم ہیں انہوں نے معروف امریکی میزبان ٹاکر کارلسن کے پروگرام میں اپنے دو دہائیوں سے زائد کے تجربات کی روشنی میں انہوں نے فلسطین کی حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے پیش کیا جس کے بعد امریکہ بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسیحی فلسطینی بھی قابض اسرائیل کے ظلم و ستم اور نسلی امتیاز پر مبنی رویوں کا اسی طرح سامنا کر رہے ہیں جس طرح مسلمان فلسطینیوں کو کرنا پڑتا ہے۔
راہبہ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ 1948 کے "النکبہ” (عظیم تباہی) کے بعد سے فلسطینی مسیحیوں کی آبادی میں واضح کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ انہیں بھی اسی طرح کے جبر، بے دخلی اور جبری ہجرت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی شناخت رکھنے والے مسیحی بھی قابض اسرائیل کی نظر میں اسی تعصب کا شکار ہیں۔
امریکی راہبہ نے امریکہ میں موجود بعض صیہونی عیسائی گروہوں کی جانب سے قابض اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ گروہ مسیحی فلسطینیوں کی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہیں اور صیہونی بستیوں کی تعمیر اور زمینوں پر قبضے کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بہت سے گرجا گھر اور مسیحی ادارے قابض اسرائیل کی بمباری اور تباہی کا نشانہ بنے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب ایک منظم منصوبے کے تحت فلسطینی قوم کو ہدف بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
مدر آگابیا نے کہا کہ فلسطینی مسیحی قدرتی طور پر مسلمانوں کے ساتھ متحد اور ہم آہنگ ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ بیت لحم اور یروشلم کے مسیحی اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کی اکثریت مسلمان ہے جو فلسطینی معاشرے میں موجود باہمی بھائی چارے اور یکجہتی کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ انٹرویو "مقدس سرزمین میں مسیحیوں کی زندگی” کے عنوان سے نشر کیا گیا جسے اب تک بارہ ملین سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔ یہ پروگرام ان اہم ترین نشریات میں سے ایک بن گیا ہے جس نے قابض اسرائیل کے ظلم میں زندگی گزارنے والے فلسطینی مسیحیوں اور مسلمانوں کی حالتِ زار کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا اور یہ دکھایا کہ وہ کس طرح صیہونی آبادکاروں کے تشدد اور قابض فوج کی پابندیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔