غزہ کو فراہم کی جانے والی امداد سمندر میں قطرے کے مترادف ہے:حماس
اتوار کے روز جاری اپنے بیان میں حماس نے واضح کیا کہ غزہ میں پہنچائی جانے والی انسانی امداد محض ایک ایسے سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہے جو انسانی ضروریات سے لبریز ہے۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس ‘نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کے محصور عوام پر مسلط کی گئی بھوک و افلاس کی پالیسی، جس نے اب تک سیکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے جن میں درجنوں معصوم بچے بھی شامل ہیں، دراصل فلسطینی قوم کی نسل کشی کے بدترین اور بھیانک ترین مراحل میں سے ایک ہے۔
اتوار کے روز جاری اپنے بیان میں حماس نے واضح کیا کہ غزہ میں پہنچائی جانے والی انسانی امداد محض ایک ایسے سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہے جو انسانی ضروریات سے لبریز ہے۔ تحریک نے فضائی راستے سے گرائی جانے والی امدادی اشیاء کو محض ایک ڈھونگ اور خطرناک حربہ قرار دیا جو نہ صرف شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ زمینی راستوں سے محفوظ اور وافر مقدار میں ٹرکوں کے ذریعے امداد پہنچانے کا کوئی نعم البدل نہیں۔
حماس نے امریکہ اور قابض اسرائیل کے حامی ممالک پر شدید الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب اس بھوک کے ہتھیار اور اجتماعی نسل کشی میں شریک ہیں کیونکہ یہ قابض کو سیاسی اور عسکری تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔
جماعت نے مطالبہ کیا کہ تمام سرحدی گزرگاہیں فوری اور بغیر کسی شرط کے کھولی جائیں اور اتنی مقدار میں محفوظ امداد داخل کی جائے جو غزہ کے عوام کی فوری ضروریات پوری کر سکے۔ ساتھ ہی عرب اور اسلامی دنیا سے اپیل کی کہ وہ واشنگٹن اور تل ابیب پر دباؤ ڈالیں تاکہ یہ جنگی جرائم روکے جا سکیں۔
حماس نے دنیا بھر کے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کریں، قابض اسرائیل کی مذمت کریں اور ہر جائز اور قانونی طریقے سے غزہ کا محاصرہ توڑنے کی جدوجہد کو تیز کریں۔
غزہ کی حکومتی میڈیا آفس کے مطابق صرف گذشتہ 14 دنوں میں 1210 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو سکے ہیں جبکہ اسی عرصے میں کم از کم 8400 ٹرک درکار تھے۔ یعنی محض 14 فیصد ضروریات پوری ہو سکی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ بیشتر امدادی ٹرک قابض اسرائیل کی جانب سے پیدا کی گئی جان بوجھ کر سکیورٹی افراتفری اور لاقانونیت میں لوٹ مار کا شکار ہوئے۔ یہ پالیسی اس منظم منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت فلسطینی عوام کے حوصلے کو توڑنے اور انہیں بھوک سے مصلوب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے تقریباً ایک تہائی عوام، جن کی کل آبادی 24 لاکھ کے قریب ہے، کئی کئی دنوں سے ایک لقمہ کھانے کو بھی ترس رہے ہیں۔
واضح رہے کہ 2 مارچ 2025ء سے قابض اسرائیل نے غزہ کے تمام زمینی راستے بند کر رکھے ہیں، کسی بھی قسم کی انسانی امداد کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس کے نتیجے میں محاصرہ زدہ غزہ مکمل طور پر قحط میں ڈوب چکا ہے۔ حالانکہ سرحدوں پر امدادی ٹرکوں کا انبار لگا ہے لیکن صرف معمولی مقدار میں امداد کو اندر آنے دیا جاتا ہے جو شہریوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کرتی۔
7 اکتوبر سنہ2023ء سے قابض اسرائیل نے امریکہ کی سرپرستی میں غزہ میں کھلی نسل کشی کا آغاز کر رکھا ہے، جس میں قتل عام، بھوک سے مارنا، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہیں۔ عالمی برادری کی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کے باوجود اس درندگی کو روکا نہیں جا سکا۔ اس وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں اب تک 61 ہزار 430 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، 1 لاکھ 53 ہزار 213 زخمی ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، 9 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر اور بھوک سے مر رہے ہیں۔