(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)یورومیڈ مانیٹر برائے انسانی حقوق نے انتہائی سخت اور دوٹوک الفاظ میں اس مجرمانہ حملے کی مذمت کی ہے جس میں قابض اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں الجزیرہ کے پانچ بہادر صحافیوں کو شہید کر دیا۔
شہداء میں الجزیرہ کے نمائندے انس شریف اور محمد قریقع بھی شامل تھے۔ یہ حملہ قابض اسرائیل کی ایک منظم پالیسی کا حصہ تھا جس کا مقصد سچائی کے گواہوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا ہے۔ اس سے محض چند گھنٹے قبل قابض اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور غزہ پر مکمل قبضے کی اپنی مجرمانہ نیت کو آشکار کیا۔
یورومیڈ مانیٹر کے فیلڈ اسٹاف کے مطابق اتوار 11 اگست 2025 کی شام ایک اسرائیلی ڈرون نے بارود سے بھری گئی پرزیشن گائیڈڈ میزائل کے ذریعے غزہ شہر میں الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے قریب صحافیوں کے خیمے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں الجزیرہ کے پانچ اراکینِ عملہ موقع پر ہی شہید ہو گئے: نمائندہ انس شریف، نمائندہ محمد قریقع، فوٹو جرنلسٹ ابراہیم ظاہر، فوٹو جرنلسٹ مؤمن علیوہ اور ڈرائیور محمد نوفل۔ دیگر کئی صحافی زخمی ہوئے۔
یورومیڈ مانیٹر کے مطابق انس شریف کا قتل کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک طویل صہیونی مہم کا تسلسل تھا۔ قابض اسرائیل نے انہیں ماضی میں کھلے عام دھمکیاں دیں، ان کے والد کو پہلے ہی ایک براہِ راست فضائی حملے میں شہید کر دیا تاکہ انس پر دباؤ ڈال کر ان کی حق گوئی کو خاموش کیا جا سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے باقی بچے فلسطینی صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملے، غیر ملکی میڈیا کو غزہ میں داخل ہونے سے مسلسل روکنا اور اکتوبر سنہ2023ء سے جاری نسل کشی کے دوران غیر معمولی پابندیاں اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ صہیونی ریاست ایک مکمل میڈیا بلیک آؤٹ مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اسی پس منظر میں غزہ کے مختلف علاقوں خصوصاً غزہ شہر میں ایک بڑی فوجی کارروائی کی تیاری کی جا رہی ہے۔
یورومیڈ مانیٹر نے دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کا قتل اور انہیں ہدف بنانا ایک کھلا جنگی جرم ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 2222 (سنہ2015ء) اور 1738 (سنہ2006ء) کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مسلح تنازعات میں صحافیوں اور میڈیا کارکنوں پر حملے ناقابلِ قبول ہیں۔ اسی طرح 1977 کے جنیوا کنونشن کے پروٹوکول اوّل کی آرٹیکل 79 میں بھی جنگی حالات میں صحافیوں کو خصوصی تحفظ دینے پر زور دیا گیا ہے۔
یورومیڈ مانیٹر نے کہا کہ قابض اسرائیل نے غزہ کی 22 ماہ طویل جنگ کو فلسطینی صحافیوں کی اجتماعی قتل گاہ میں بدل دیا ہے۔ ان کے مطابق اب تک 230 سے زائد صحافی شہید کیے جا چکے ہیں، جن میں تمام میڈیا شعبوں کے کارکن شامل ہیں، جب کہ درجنوں زخمی یا قید کیے گئے ہیں۔ یہ جدید تاریخ میں کسی بھی جنگ میں صحافیوں کی سب سے بڑی جانی قربانی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ قابض اسرائیل جان بوجھ کر صحافیوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں چھوڑتا، چاہے وہ میدان میں اپنی شناختی جیکٹ پہن کر رپورٹنگ کر رہے ہوں، ہسپتالوں کے قریب قائم خیموں میں موجود ہوں یا اپنے گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ بیٹھے ہوں۔ میڈیا کے دفاتر کو بھی بلا دریغ تباہ کر دیا گیا۔
یورومیڈ مانیٹر نے واضح کیا کہ صحافیوں پر یہ حملے دراصل آزادی اظہارِ رائے اور دنیا کے حقِ اطلاع پر حملہ ہیں۔ یہ اقدام انسانی حقوق کی کھلی پامالی اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ادارے نے مطالبہ کیا کہ قابض اسرائیل کے ان جرائم کی غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی جائیں، اور ان کے مرتکب تمام ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اس نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور تمام مؤثر ممالک پر زور دیا کہ وہ اس مجرمانہ روش پر مزید خاموشی اختیار نہ کریں بلکہ قابض اسرائیل کو مجبور کریں کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے اور تنازعات کے علاقوں میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔