(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) سیاسی و ترقیاتی مطالعات کے مرکز نے جمعرات کو اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج ساتھ اکتوبر 2023 سے جاری غزہ جنگ کے دوران شدید انسانی وسائل کے بحران اور تھکن کا شکار ہے جس کی گزشتہ کئی دہائیوں میں مثال نہیں ملتی۔
رپورٹ کے مطابق قابض فوج کو دوہرے نقصان کا سامنا ہے، ایک طرف ہزاروں فوجی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیںجبکہ دوسری طرف صہیونی سفاک فوج میں بھرتی کی شرح میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ فوج میں خودکشیوں، فرار اور احکامات ماننے سے انکار کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
اس تجزیاتی مطالعے میں بتایا گیا کہ قابض اسرائیلی میڈیا اور سرکاری رپورٹیں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ خصوصی فوجی یونٹوں کے اندر حوصلے بری طرح ٹوٹ چکے ہیں اور فوجیوں سے لے کر افسران تک میں تنقید کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابض فوج اس بحران سے نمٹنے کے لیے جو بھی متبادل اقدامات کر رہی ہے، جیسے مزید بھرتیاں، ریزرو افسران کو واپس بلانا، اور بیرون ملک سے صہیونیوں اور افریقی افراد کو بھرتی کرنے کی کوششیں وہ سب بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود، زمینی محاذ، خاص طور پر غزہ میں افرادی قوت کی شدید کمی برقرار ہے۔
رپورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ لازمی اور رضاکارانہ فوجی خدمات کو برقرار رکھنا قابض اسرائیل کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ بھرتی سے بچنے اور جنگ میں شرکت سے انکار کے رجحانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں خاص طور پر تعلیمی نوجوان، بائیں بازو اور مذہبی طبقات کی جانب سے مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ اندرونی بحران تل ابیب میں سیاسی اور سکیورٹی پالیسی سازوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے اور انہیں غزہ میں اپنی جنگی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر رہا ہے کیونکہ فوجی فتح کا صہیونی بیانیہ اب خود فوجیوں کو بھی قائل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔