یورپی ارکان پارلیمنٹ کا قابض ریاست سے تجارتی تعلقات معطل کرنے کا مطالبہ
اکتالیس اراکین نے ایک تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات اور شراکت داری کے معاہدے کو فوری طور پر معطل کر دے۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) یورپی پارلیمنٹ کے اکتالیس اراکین نے ایک تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات اور شراکت داری کے معاہدے کو فوری طور پر معطل کر دے کیونکہ قابض اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے اور غزہ پر اپنی وحشیانہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان اراکین نے ایک مشترکہ خط میں یہ بھی مطالبہ کیا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر صہیونی آبادکاروں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے جواب میں ان پر فوری پابندیاں عائد کی جائیں۔ یہ خط یورپی کمیشن کی صدر ارسولا فان ڈیر لائن، یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا اور خارجہ امور و سکیورٹی پالیسی کی اعلیٰ نمائندہ کایا کالاس کو بھیجا گیا ہے۔
اس خط پر دستخط کرنے والے اکتالیس یورپی اراکین پارلیمنٹ کا تعلق اسپین، سویڈن، فرانس، سلووینیا، پرتگال، بیلجیئم، مالٹا، ڈنمارک، اٹلی، جمہوریہ آئرلینڈ، رومانیہ، فن لینڈ، یونان، لیتھوینیا، قبرص اور سلوواکیہ جیسے ممالک سے ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے ساتھ اکتوبر 2023 سے اب تک مغربی کنارے میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں اور سات ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیل کی طرف سے انسانی امداد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں اجتماعی قحط جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
اس دردناک حقیقت کے پیش نظر اراکین پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا جائے، تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اور قابض اسرائیل کے ساتھ یورپی یونین کی تجارتی شراکت داری کو معطل کیا جائے جیسا کہ معاہدے کی شق نمبر دو میں درج ہے کیونکہ سفاک صہیونی حکومت مسلسل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
خط میں انروا کے مکمل اختیارات کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا گیا تاکہ فلسطینی عوام کو فوری اور منظم انسانی امداد فراہم کی جا سکے۔ اراکین نے اس بات پر زور دیا کہ متبادل امدادی طریقے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور ان کی وجہ سے مزید انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ قابض اسرائیلی آبادکاروں کے خلاف جامع اقدامات کیے جائیں خاص طور پر ان کے خلاف جو تشدد میں ملوث ہیں۔ ان اقدامات میں دہری شہریت کی واپسی، سفری پابندیاں اور اثاثوں کو منجمد کرنا شامل ہے۔
اراکین کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کے بغیر قابض اسرائیلی آبادکاروں کی جانب سے جاری منظم تشدد کا سلسلہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک ایسی حکومتی مہم کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو فلسطینی عوام کی مکمل نسل کشی کے لیے جاری ہے۔ غزہ میں انہیں قحط اور بمباری کے ذریعے شہید کیا جا رہا ہے جبکہ مغربی کنارے میں انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور صہیونی آبادکار مسلسل ہراساں کر رہے ہیں۔
انہوں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے بنیادی اصولوں پر قائم رہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے فرائض پورے کرے۔
خط میں پچیس جولائی کو بیت لحم کے مشرق میں واقع گاؤں کِیسان پر صہیونی آبادکاروں کے حملے اور گھروں کو آگ لگانے ستائیس جولائی کو رام اللہ کے مشرق میں واقع الطیبہ پر حملے اور ٹھائیس جولائی کو الخلیل کے جنوبی علاقے مسافر یطا میں ام الخیر گاؤں پر حملے کے دوران معروف انسانی حقوق کے کارکن عُودہ الہدالین کے بہیمانہ قتل کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ عُودہ آسکر ایوارڈ یافتہ ڈاکومنٹری نو لینڈ آف مائن میں مرکزی کردار تھے۔
خط میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ تیس سے اکتیس جولائی کی درمیانی شب رام اللہ کے مشرقی قصبے سلواد میں نوجوان خمیس عبد اللطیف عیاد اس وقت شہید ہو گیا جب وہ اپنے گھر میں لگی آگ بجھانے کی کوشش کر رہا تھا، جو آبادکاروں کے حملے کی وجہ سے لگی تھی۔
اراکین نے خبردار کیا کہ یہ سب کچھ قابض اسرائیل کی نئی سیاسی پالیسیوں کے تحت ہو رہا ہے، جو صہیونی آبادکاروں کے مظالم کو کھلی چھوٹ دیتی ہیں۔ تئیس جولائی کو صہیونی پاڑلیمنٹ کنیسٹ نے مغربی کنارے کو ضم کرنے کے حق میں ایک قرارداد منظور کی۔ صرف ایک ہفتے بعد تیس جولائی کو انتہا پسند صہیونی گروہ نحالہ (جس کی سربراہی دانییلا ویس کر رہی ہیں)نے قابض اسرائیل کے وزیر جنگ یسرائیل کاٹز کو ایک خط لکھا جس میں شمالی غزہ میں ایک نئی غیر قانونی صہیونی بستی قائم کرنے کی تجویز دی گئی۔
اراکین نے اپنے خط کے اختتام پر لکھا کہ یہ تمام اقدامات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ اب بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں انفرادی کارروائیاں نہیں رہیں بلکہ ایک منظم ریاستی پالیسی بن چکی ہیں۔