(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ کی پٹی میں جاری تنازعے پر قابض اسرائیلی ریاست کے اندر عوامی ناراضگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہفتے کی شام، اسرائیلی قیدیوں کے خاندانوں نے تل ابیب میں وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹر کے سامنے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے صہیونی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر قیدیوں کے تبادلے کا ایک جامع معاہدہ کرے جس کے نتیجے میں غزہ میں جاری جنگ کا خاتمہ ہو۔
یہ احتجاجی مظاہرے ایک ایسے نازک وقت پر ہو رہے ہیں جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں غاصب اسرائیل اور حماس کے مابین قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے حوالے سے بالواسطہ بات چیت جاری ہے، جو اتوار کو اپنے دوسرے ہفتے میں داخل ہوچکی۔
مظاہرین نے بنجمن نیتن یاہو کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ اسیران کے معاملے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ قیدیوں کے لواحقین نے جنگی جرائم کے مُرتکب وزیراعظم نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ اپنی کابینہ کے انتہا پسند وزراء، جیسے سموٹریچ اور بن گویر کے دباؤ کو مسترد کریں اور اس حساس انسانی مسئلے پر سیاست نہ کریں۔
دوحہ مذاکرات میں شامل ایک سینئر قابض شخص نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بات چیت کا عمل انتہائی مشکل اور پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ صہیونی فوج کے لیے ان علاقوں میں واپس جانا ممکن نہیں جہاں وہ پچھلی جنگ بندی کے دوران تعینات تھی۔