(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض فوج کے غزہ میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان نے نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔
صیہونی ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کے روز امریکی صدر سے ملاقات کی، لیکن غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کی روزانہ ہلاکتوں کی خبروں نے میڈیا اور عوامی توجہ کو اس اہم اجلاس سے ہٹا دیا۔
اس کے ساتھ ہی،قابض اسرائیل کے اندر غزہ میں جنگ جاری رکھنے پر تنقید میں تیزی آئی ہے۔ اسرائیلی تجزیہ کاروں نے اس جنگ کا موازنہ "ویتنام” سے کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ غزہ پر مکمل قبضہ امریکی فوج کے ویتنام میں کیے گئے تاریخی غلط فیصلے سے بھی بڑی غلطی ثابت ہو سکتا ہے۔
عبرانی اخبار "یدیعوت احرونوت” نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں، ناداو اییال کے قلم سے، نیتن یاہو کے امریکہ کے دورے پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ اس ملاقات کی کیا اہمیت ہے، جب غزہ میں مزید پانچ خاندان اپنے جوانوں کی موت پر سوگ منا رہے ہیں؟
اییال نے زور دیا کہ حماس کو غیرمسلح کرنے” یا "اس کی حکمرانی کو ختم کرنے” جیسے نعرے صرف اس صورت میں پورے ہو سکتے ہیں جب غزہ پر مکمل فوجی قبضہ کیا جائے۔ تاہم، ان کے مطابق، یہ منظرنامہ اسرائیل کو ایک لامتناہی "ویتنام کیچڑ” میں دھکیل دے گا۔
انہوں نے لکھا کہ فوجی قبضہ ایک تباہی ہے۔قابض اسرائیل نہیں چاہتا کہ فلسطینی خودمختار اتھارٹی غزہ پر حکومت کرے، اور اب صرف ایک ہی آپشن باقی رہ جاتا ہے—اسرائیل کا براہ راست فوجی حکومت۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو مسلسل تنزلی کا باعث بنے گا۔
مصنف نے مزید کہا کہ اعداد و شمار تل ابیب کے سرکاری بیانیے کو غلط ثابت کر رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ حماس کو شکست نہیں ہوئی ہے۔ اییال کے مطابق، گزشتہ مارچ سے اب تک 38 صہیونی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، یعنی اوسطاً ہر ماہ 10 افراد۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جون میں ہوا، جو ظاہر کرتا ہے کہ حماس کی جنگی صلاحیت کم نہیں ہوئی۔
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حماس کے حالیہ حملے "بیت حانون” کے علاقے میں سرحدی باڑ سے محض دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہوئے ہیں، جہاں قابض فوج نے ان علاقوں کو "محفوظ” قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملہ "سیکیورٹی بفر زون” کی نام نہاد حکمت عملی کی مکمل ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ کے ایک اور حصے میں، مصنف نے امریکہ کے صدام حسین کی فوج کو تحلیل کرنے کی تاریخی غلطی کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کی غزہ میں اسی طرح کی ممکنہ غلطی سے موازنہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ غزہ جہاں نہ کوئی امن ہے، نہ معیشت، وہاں مزاحمت کار کیسے پیدا نہ ہوں گے؟ مکمل انہدام کی صورت میں نوجوانوں کا قابض اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا ناگزیر ہے۔
انہوں نے "رفح ہیومنٹیرین پلان” کو بھی "ایک نیا وہم” قرار دیا اور سوال اٹھایا کہ دو ملین فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کیسے منتقل کیا جائے گا؟ ان کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ حماس کی واپسی کو کیسے روکا جائے گا؟ یہاں تک کہ اس منصوبے کے بنانے والوں کے پاس بھی واضح جوابات نہیں ہیں۔
اسی دوران، یدیعوت احرونوت کے ایک اور کالم نگار رانان شاکید نے نیتن یاہو پر سخت حملہ کرتے ہوئے لکھا کہ وہ پراپیگنڈے، واشنگٹن کے دورے اور ٹرمپ کے ساتھ تصاویر بنوانے میں مصروف ہیں، جبکہ ہر روز فوجی مارے جا رہے ہیں۔
شاکید نے مزید کہا کہ وزیراعظم خاندانوں کے دکھ کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات سست روی کا شکار ہیں، حالانکہ جنگ کو 640 دن گزر چکے ہیں۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو فتح کا جھوٹا خواب دکھایا جا رہا ہے، جبکہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت کا خونین جنگ کے میدان سے کوئی تعلق نہیں۔