(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض صہیونی حکومت نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے جھوٹ، فریب اور الزام تراشی کا نشانہ بنایا، صرف اس لیے کہ اس نے اپنی تازہ رپورٹ میں غزہ میں جاری نسل کشی کے سلسلے میں قابض اسرائیل کی جانب سے بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کا پردہ چاک کیا ہے۔
مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ سنہ2024ء کے ستائیس مئی سے قابض صہیونی حکومت اور امریکہ نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں کی شفاف نگرانی سے ہٹ کر اپنی ہی نام نہاد “غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” کے ذریعے محدود امداد کی تقسیم کا عمل شروع کیا جو درحقیقت معصوم و نہتے فلسطینیوں کو شہید کرنے کا ایک گھناؤنا منصوبہ ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں دل دہلا دینے والی گواہیاں پیش کی ہیں جنہیں ہسپتالوں کے عملے، بچوں کے والدین اور بے گھر فلسطینیوں سے حاصل کیا گیا۔ یہ بیانات غزہ میں مہلک بھوک، شدید غذائی قلت اور پھیلے ہوئے مایوسی کے عالم کی خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح قابض اسرائیل کی جانب سے جان بچانے والی امداد پر مسلسل پابندی، ظالمانہ فوجی نظام، جبری بے دخلی، خوفناک بمباری اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کی تباہی معصوم و نہتے فلسطینیوں کو اجتماعی بربادی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
قابض صہیونی حکومت نے امریکہ کے مکمل تعاون سے غزہ میں نسل کشی کی وہ بھیانک جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں وزارتِ صحت کے مطابق اب تک ستاون ہزار ایک سو تیس سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، ایک لاکھ پینتیس ہزار ایک سو تہتر زخمی ہیں اور گیارہ ہزار سے زائد لاپتہ ہیں۔ سینکڑوں بھوک سے دم توڑ چکے ہیں جبکہ دو ملین سے زائد فلسطینی بے سروسامانی کی حالت میں در بدر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ صرف نام نہاد امریکی امدادی مراکز پر جنہیں قابض اسرائیل نے "غزہ ہیومینیٹیریئن فاؤنڈیشن” کے پردے میں قائم کیا ہے، چھ سو باون فلسطینی شہید، چار ہزار پانچ سو سینتیس زخمی اور اُنتالیس لاپتہ ہو چکے ہیں۔ یہ مراکز عالمی سطح پر مسترد کیے گئے ہیں اور دراصل قابض صہیونی حکومت کا وہ مکروہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعے وہ انسانی ہمدردی کے نقاب میں فلسطینیوں کو یا تو بھوک سے مرنے یا گولی سے مارنے پر مجبور کررہی ہے۔