صہیونی آبادکاروں کا کفرالدیک پر حملہ، پھل دار باغات تباہ
اس تازہ وحشیانہ کارروائی میں انہوں نے زیتون، انگور اور بادام کے درجنوں پھلدار درختوں کو تباہ کر دیا۔ یہ جارحیت فلسطینی سرزمین اور اس کے وجود کے خلاف جاری بڑھتی ہوئی صہیونی مہم کا حصہ ہے
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض اسرائیل کے انتہاپسند صہیونی آبادکاروں نے بدھ کے روز سلفیت کے مغرب میں واقع فلسطینی قصبے کفر الدیک کی زرعی زمینوں پر حملہ کر دیا۔ اس تازہ وحشیانہ کارروائی میں انہوں نے زیتون، انگور اور بادام کے درجنوں پھلدار درختوں کو تباہ کر دیا۔ یہ جارحیت فلسطینی سرزمین اور اس کے وجود کے خلاف جاری بڑھتی ہوئی صہیونی مہم کا حصہ ہے جو پورے غرب اردن میں پھیل چکی ہے۔
مقامی ذرائع نے "وفا” نیوز ایجنسی کو بتایا کہ صہیونی آبادکاروں نے کفرالدیک کے رہائشی دو فلسطینی بھائیوں، جہاد اور سلیمان عبداللہ الدیک کی زمین پر دھاوا بولا جو قصبے کے شمال میں "ظہر صبح” کے مقام پر واقع ہے۔ حملہ آوروں نے درجنوں پھلدار درختوں کو کاٹ دیا اور قریب ہی نصب شہد کی مکھیوں کے تقریباً پچاس چھتوں کو بھی توڑ پھوڑ کر تباہ کر دیا۔
غرب اردن میں قابض صہیونی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ آبادکار نہ صرف فلسطینیوں کے گھروں، زمینوں اور املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ زرعی زمینوں پر نئی صہیونی بستیاں قائم کرنے کی مذموم کوششیں بھی کر رہے ہیں خاص طور پر چراگاہوں اور کھیتوں کی زمینوں کو ہتھیانے کے لیے۔
دیوار اور آبادکاری کے خلاف مزاحمت کی فلسطینی سرکاری کمیٹی کے مطابق صرف مئی 2023 میں قابض صہیونی آبادکاروں نے پندرہ نئی غیرقانونی بستیاں قائم کرنے کی کوشش کی جن میں سے زیادہ تر زرعی نوعیت کی تھیں۔ اسی مہینے میں چار سو پندرہ صہیونی حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں مسلح حملے، زرعی زمینوں پر بلڈوزر چلانا، درختوں کو کاٹنا اور سڑکوں کو بند کرنا شامل ہیں۔
فلسطینی اندازوں کے مطابق، 2024 کے اختتام تک غرب اردن میں قابض صہیونی آبادکاروں کی تعداد ساتھ لاکھ ستر ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ آبادکاری ایک سو اسی بڑی صہیونی کالونیوں اور دو سو چھپن غیرقانونی چوکیوں جیسی بستیوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں سے ایک سو اڑتیس چراگاہی اور زرعی بستیاں ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد زمین پر قبضہ کر کے فلسطینی عوام کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنا ہے۔
یہ وحشی درندہ صفت صہیونی آبادکار صرف زیتون، انگور یا بادام کے درختوں کو ہی نہیں کاٹتے بلکہ فلسطینی شناخت، تاریخ اور ان کے روزگار کے ذرائع کو بھی بے رحمی سے کچلتے ہیں۔ یہ درندگی اس عالمی ضمیر کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے جو اب بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جبکہ فلسطینی اپنے ہی گھروں اور کھیتوں میں غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔