(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) برطانوی پارلیمان نے بدھ کے روز انسانی حقوق کے لیے سرگرم فلسطینی حامی تنظیم ’فلسطین ایکشن‘ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب خود برطانوی پارلیمان کے اندر سے فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ فلسطین کا معاملہ اب عالمی ضمیر پر دستک دے رہا ہے۔
حال ہی میں فلسطین ایکشن کے کارکنوں نے انگلینڈ میں واقع فوجی اڈے بریز نارتن میں داخل ہو کر جنگی طیاروں پر سرخ رنگ پھینک دیا تھا جو قابض صہیونی ریاست کو ہتھیاروں کی فراہمی کے خلاف ایک علامتی احتجاج تھا جس کو بہانہ بنا کر صہیونی حمایتی حکومت نے فلسطینی حقوق کے لیے اٹھنے والی آواز پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔
دوسری طرف، اسی برطانوی پارلیمان میں فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھنے والی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کی سربراہ میلی تھورنبری نے مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ کو فرانس کی طرح فوری طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے پورے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا ہے اور اگر اب بھی کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو شاید مستقبل میں تسلیم کرنے کے لیے کوئی فلسطین ہی باقی نہ رہے۔
میلی تھورنبری نے مزید کہا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر قائل کیا جانا چاہیے کہ وہ قابض صہیونی حکومت پر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے دباؤ ڈالیں۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل کے آغاز میں فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس ممکنہ طور پر جون میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا ہوگا اور ہم آئندہ چند مہینوں میں یہ قدم ضرور اٹھائیں گے۔ یہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ وقت کی ضرورت کے مطابق ہوگا۔
قابض صہیونی حکومت امریکہ کی سرپرستی میں ساتھ اکتوبر 2023 سے غزہ میں معصوم و نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کررہی ہے۔ اس درندگی میں ہزاروں فلسطینی شہید، لاکھوں زخمی، بے گھر اور بھوک و پیاس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے احکامات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے قابض اسرائیل نے ایک پورے علاقے کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
فلسطینی نسل کشی کے اس خونی باب میں اب تک تقریباً ایک لاکھ اکیانوے ہزار فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد افراد اب بھی لاپتہ ہیں، جبکہ لاکھوں افراد دربدر ہو چکے ہیں۔ شدید قحط کے نتیجے میں کئی بچے بھوک سے جان کی بازی ہار چکے ہیں اور پورے علاقے میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیل چکی ہے۔