(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) عالمی پارلیمانی تنظیم "پارلیمنٹس فار القدس” نے عالمی ایوانوں، علاقائی، بین الاقوامی پارلیمانی تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے فوری اپیل کی ہے کہ وہ غزہ کے بچوں کو قابض اسرائیل کی وحشیانہ نسل کشی اور سخت محاصرے سے بچانے کے لیے فوری اور موثر قدم اٹھائیں۔
یہ اپیل فیلڈز کی رپورٹس اور انسانی جائزوں پر مبنی ہے جن میں "انٹرنیشنل فورم فار جسٹس اگینسٹ جینوسائڈ کا بیان بھی شامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں ساٹھ ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت اور صحت کی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں۔ بچوں کے دودھ اور علاج معالجے کی اشیاء کی شدید کمی کے باعث کئی ننھے بچوں کی بھوک اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں جبکہ صحت کا نظام مکمل طور پر منہدم ہو چکا ہے۔
رابطہ نے واضح کیا ہے کہ قابض صہیونی حکومت کی جارحیت اور بے رحمی جنگی جرم کی تمام شرائط پر پوری اترتی ہے جیسا کہ جنیوا کنونشن میں درج ہے۔ اس جرم کی پوری ذمہ داری قابض اسرائیل پر عائد ہوتی ہے جو محصور فلسطینی عوام کو جان بوجھ کر بھوکا رکھ رہا ہے اور ادویات کی رسائی روک رہا ہے۔
رابطہ نے عالمی پارلیمان اور بین الاقوامی پارلیمانی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھوک اور محاصرے کی مذمت میں واضح موقف اپنائیں، فوری انسانی راہداریوں کو کھولنے کا مطالبہ کریں اور بچوں کے لیے امدادی پروگرامز کی حمایت کو یقینی بنائیں۔
رابطہ نے خبردار کیا ہے کہ عالمی سطح پر خاموشی اور عمل نہ کرنے کا مطلب فلسطینی بچوں کے خلاف جاری نسل کشی میں شریک ہونا ہے۔ انسانی، اخلاقی اور پارلیمانی ذمہ داری ہے کہ پوری دنیا قابض اسرائیل کے ظلم کے خلاف کھڑی ہو اور اس انسانی المیے کو روکنے کے لیے آواز بلند کرے۔
یونیسف نے بھی گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ غزہ میں تقریباً 470 ہزار بچے مارچ سے غذائی قلت کی سنگین صورتحال میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ فوری امداد نہ ملنے کی صورت میں انسانی بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔
قابض اسرائیل 2023ء کے اکتوبر سے امریکہ کی حمایت میں غزہ میں وحشیانہ نسل کشی کر رہا ہے، جس میں قتل، بھوک، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہے۔ بین الاقوامی آوازوں اور عالمی عدالت کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے قابض ریاست نے لاکھوں فلسطینیوں، خاص طور پر معصوم بچوں اور خواتین کو شہید، زخمی اور لاپتہ کر دیا ہے۔ اس وسیع پیمانے پر تباہی کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔