لندن: فلسطین نواز مظاہرے پر پابندی، آواز دبانے کی سازش
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب گزشتہ ہفتے تنظیم کے دو کارکنوں نے ایک فوجی اڈے میں داخل ہو کر احتجاجی کارروائی کی تھی۔ حکومت اب اس تنظیم کو کالعدم قرار دینے پر غور کر رہی ہے
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) برطانیہ میں پولیس نے پیر کے روز فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم "فلسطین ایکشن” کو برطانوی پارلیمان کے سامنے مظاہرہ کرنے سے روک دیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب گزشتہ ہفتے تنظیم کے دو کارکنوں نے ایک فوجی اڈے میں داخل ہو کر احتجاجی کارروائی کی تھی۔ حکومت اب اس تنظیم کو کالعدم قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔
فلسطینی مظلوموں کی حمایت میں پیش پیش رہنے والی تنظیم "فلسطین ایکشن” نے اس اقدام کا جواب دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنا احتجاج ترافلگر اسکوائر منتقل کر رہی ہے جو پارلیمان کے قریب ہی واقع ہے اور وہیں احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔
یہ تنظیم کئی مہینوں سے ان برطانوی کمپنیوں کو نشانہ بناتی چلی آ رہی ہے جو قابض اسرائیل کی فوجی مشینری اور اس کے جنگی جرائم میں کسی نہ کسی شکل میں شریک ہیں خصوصاً ان کمپنیوں کو جو جنگی سازوسامان فراہم کرتی ہیں۔ غزہ پر جاری نسل کشی کے بعد سے تنظیم کی سرگرمیاں مزید تیز ہو گئی ہیں۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت "فلسطین ایکشن” پر پابندی لگانے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، جس کے بعد اس کا شمار ان تنظیموں میں ہو گا جن میں القاعدہ اور داعش شامل ہیں۔ ایسی کسی کارروائی کا مطلب ہو گا کہ برطانیہ کی سرزمین پر فلسطینی آزادی کے لیے آواز اٹھانا قانونی طور پر جرم ہے۔
گزشتہ شب لندن پولیس نے اعلان کیا کہ وہ پارلیمان کے سامنے مخصوص علاقے میں "فلسطین ایکشن” کے احتجاج کو روکنے کے لیے اس علاقے کو مظاہروں کے لیے ممنوعہ قرار دے رہی ہے حالانکہ یہ جگہ ہمیشہ سے مختلف مسائل پر پرُامن مظاہروں کا مرکز رہی ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قابض اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی میں غزہ کے نہتے عوام پر نسل کشی کی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے۔ ساتھ اکتوبر 2024ء سے جاری اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ ستاسی ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں، ہزاروں لاپتہ ہیں اور لاکھوں بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔