(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) صہیونی اخبار ہارٹزنے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی باشندوں میں ایک نئی قسم کی بے چینی پھیل گئی ہے جس کے تحت سینکڑوں افراد قابض ریاست چھوڑ کر قبرص کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ افراد نجی کشتیوں کے ذریعے غاصب بندرگاہوں جیسے ہرٹزیلیا، حیفا اور عسقلان سے خفیہ طور پر روانہ ہو رہے ہیں۔ یہ سفر نہ صرف مکمل رازداری میں کیا جا رہا ہے بلکہ اس پر ہزاروں شیکل کا خرچہ بھی آ رہا ہے۔
غاصب اخبار کے مطابق سوشل میڈیا پر بنائے گئے خفیہ گروپوں کے ذریعے ان سمندری سفروں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان گروپوں میں شامل ہونے والے قابضین اپنی شناخت پوشیدہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سفر کسی آرام یا تفریح کے لیے نہیں بلکہ مجبوری اور شدید خوف کی حالت میں کیا جا رہا ہے۔ بعض افراد نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ ایرانی میزائلوں کے خطرے سے بچنے کے لیے فرار ہو رہے ہیں۔
قابض بندرگاہوں پر چھوٹے بیگ لیے افراد کی آمد دیکھی جا رہی ہےجو ان کشتیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو قبرص کے شہر لارناکا کی طرف جاتی ہیں۔ وہاں سے وہ دنیا کے دیگر حصوں کا رخ کرتے ہیں۔
صہیونی اخبار نے ہرٹزیلیا کی بندرگاہ کے منظر کو ایک چھوٹے ہوائی اڈے کی روانگی کا منظر قرار دیا جہاں ایک وقت میں ایک سو سے زائد افراد کی روانگی دیکھی گئی۔ قابض حکام اس رجحان کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان فرار ہونے والوں کا پس منظر مختلف ہے،کچھ وہ ہیں جو غاصب ریاست میں پھنس گئے تھے کچھ بیرون ملک اپنے خاندان سے ملنے کے خواہاں ہیں جبکہ کئی افراد نے مستقل طور پر صہیونی ریاست کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک قابض شخص نے بتایا کہ وہ پرتگال میں اپنی ساتھی کے کہنے پر وہاں مستقل رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے۔
قبرص کا یہ سمندری سفر یاٹ کی قسم اور رفتار کے مطابق آٹھ سے پچیس گھنٹے پر محیط ہوتا ہے۔ اس کی لاگت پچیس سو سے چھ ہزار شیکل تک ہوتی ہے۔ اگرچہ اس سفر کے بدلے خطیر رقم کی پیشکش کی جاتی ہے تاہم کئی کشتیوں کے کپتان ان غیر قانونی اور غیر لائسنس یافتہ سفروں میں شامل ہونے سے انکار کر چکے ہیں کیونکہ یہ سفر بغیر کسی قانونی تحفظ کے ہوتا ہے۔
اس دوران قابض صہیونی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت غاصب شہریوں کو ان نجی فضائی پروازوں کے ذریعے سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے جو ماضی میں بیرون ملک پھنسے افراد کی واپسی کے لیے مخصوص کی گئی تھیں۔ یہ فیصلہ ایرانی افواج کی جانب سے قابضین کو فلسطینی سرزمین سے نکل جانے کی سخت وارننگ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ "یہی ان کی جان بچانے کا واحد راستہ ہے”۔
اگرچہ اس حکم نامے اور بڑے پیمانے پر ممکنہ فرار کے درمیان کوئی باضابطہ تعلق ظاہر نہیں کیا گیا مگر اس فیصلے کا وقت ایسے علاقائی تناؤ کے بیچ آیا ہے جب ایران کی جانب سے ایک بڑے حملے کا خدشہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی قابض صہیونی معاشرے میں عدم تحفظ اور ہلاکتوں میں بے پناہ اضافے کے سبب شدید بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالات میں ایتھنز اور لارناکا صہیونی باشندوں کے لیے ہمیشہ محفوظ پناہ گاہیں سمجھی گئی ہیں۔ تاہم حکومتی وارننگ کے باوجود ان مقامات کی جانب فرار کو روکنے کی کوشش دراصل غیر منظم انخلا کی روک تھام اور نتن یاہو حکومت کی طرف سے استحکام کے تاثر کو قائم رکھنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ غاصب میڈیا کے اندازوں کے مطابق اس وقت ایک سے دو لاکھ صہیونی شہری بیرون ملک موجود ہیں۔
قابض صہیونی افواج نے امریکی پشت پناہی سے جمعہ کی صبح ایران پر بڑا حملہ کیا جس میں جوہری تنصیبات، میزائل اڈوں، فوجی رہنماؤں اور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اب تک دو سو چوبیس افراد شہید اور بارہ سو ستتر افراد زخمی ہو چکے ہیں۔