(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضے اور استعماری پھیلاؤ کی پالیسی پر عمل جاری ہے۔ صہیونی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ قابض صہیونی حکومت کی نام نہاد سول انتظامیہ جو درحقیقت مغربی کنارے میں صہیونی فوج کا ایک بازو ہے اس نے رام اللہ اور نابلس کے درمیان قائم غیرقانونی صہیونی بستی ملائکۂ سلام کے اطراف تقریباً آٹھ سو دونم فلسطینی اراضی پر قبضہ جما کر اسے قابض ریاست کی ملکیت یعنی غاصب نام نہاد ریاستی زمین قرار دے دیا ہے۔
صہیونی تنظیم سلام الآن جو مغربی کنارے میں صہیونی بستیوں پر نظر رکھتی ہے ،انہوں نے بتایا کہ اگرچہ یہ فیصلہ قابض انتظامیہ کی ویب سائٹ پر تاحال شائع نہیں ہوا تاہم دستیاب نقشے اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ قابض اسرائیل نے دوما اور المغیر کے درمیان کم و بیش ساڑھے ساتھ سو دونم اراضی ہتھیا لی ہے۔
یہی وہ بستی ہے جس کے قیام کا اعلان بنجمن نیتن یاھو کی حکومت نے فروری سنہ2023ء میں نو نئی صہیونی بستیوں کے منصوبے کے تحت کیا تھا۔
قابض صہیونی ریاست کی موجودہ انتہاپسند حکومت جو دسمبر سنہ2022ء میں قائم ہوئی اب تک تقریباً پچیس ہزار پانچ سو دس دونم اراضی کو ریاستی زمین قرار دے چکی ہے۔ یہ وہی پالیسی ہے جو اوسلو معاہدے کے بعد سے خاموشی سے فلسطینی زمینوں کو ہتھیانے کے لیے اپنائی گئی تھی جس کے تحت فلسطینیوں سے اپنی ہی زمین استعمال کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
قابض اسرائیل یہ زمینیں صرف صہیونی آبادکاروں کو دیتا ہے تاکہ ان کے لیے نئی بستیاں تعمیر کی جا سکیں اور فلسطینیوں کو ان کی اپنی موروثی زمین سے بے دخل کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ 1980ء کی دہائی میں قابض صہیونی ریاست نے ہزاروں دونم اراضی کو زبردستی اپنی ملکیت قرار دیا تھا۔ سنہ1992ء میں اسحاق رابین کی حکومت نے وقتی طور پر یہ سلسلہ روکا مگر بنجمن نیتن یاھو نے 1998ء میں دوبارہ یہ غیرقانونی عمل بحال کر دیا۔
گزشتہ دو برسوں میں اس غیرقانونی قبضے میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے اور قابض حکومت مزید بستیاں قائم کرنے کے لیے نئے اعلانات کی تیاری میں ہے۔
تنظیم سلام الآن نے اس فیصلے کو صریحاً صہیونی دہشت گردی کی حوصلہ افزائی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق جب قابض آبادکار، زبردستی، دھونس دھاندلی، اور تشدد سے زمینوں پر قابض ہوتے ہیں تو قابض حکومت انہیں انعام کے طور پر وہ زمینیں دے دیتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سنہ2024ء کے اختتام تک مغربی کنارے میں صہیونی آبادکاروں کی تعداد ساتھ لاکھ ستر ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جوایک سو اَسی مستقل بستیوں اور دو سو چھپن عارضی مراکز میں بٹے ہوئے ہیںجن میں ایک سو اڑتیس زرعی اور چراگاہی بستیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔
بیس جولائی سنہ2024ء کو عالمی عدالت انصاف نے واضح اعلان کیا تھا کہ قابض اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ غیرقانونی ہے۔ عدالت نے فلسطینی قوم کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ان بستیوں کو خالی کیا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ بھی برسوں سے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں صہیونی بستیوں کو غیرقانونی قرار دے کر ان کے خاتمے کا مطالبہ کرتی آئی ہے مگر دنیا کی بےحسی اور طاقتوروں کی خاموشی نے قابض صہیونی ریاست کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
غزہ میں فلسطینی نسل کشی کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں بھی جارحیت اور ظلم کا بازار گرم ہے۔ ہسپتالوں پر حملے، گھروں کی مسماری، گرفتاریوں کی یلغار، جبری نقل مکانی اور زمینوں پر قبضہ سب اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کا مقصد صرف ایک ہے کہ فلسطینی سرزمین کو صہیونیت میں تبدیل کردیا جائے۔