(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) مقامی گواہوں کے مطابق، مظاہرین نے رات گئے تک سڑکوں پر اپنی موجودگی برقرار رکھی۔ ان کے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم تھے اور وہ غزہ کے بے گناہ باسیوں کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے۔ ان احتجاجی افراد نے غزہ میں جاری وحشیانہ کارروائیوں اور ایران پر حملے کے خلاف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
احتجاج کرنے والوں نے امریکہ کو غزہ میں جاری نسل کشی بڑے پیمانے پر بھوک، تباہی اور بے گھری کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا اور قابض صہیونی حکومت کو اس ظالمانہ جنگ کے لیے فراہم کی جانے والی امریکی حمایت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔
یہ احتجاج صہیونی مداخلت کے خلاف طلبہ کی پہل نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام منعقد ہواجو فلسطینی مقصد کے لیے مسلسل سرگرم ِعمل ہے اور قابض ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو تسلیم نہیں کرتی۔
یہ احتجاج ایسے وقت میں منعقد ہوا جب ساتھ اکتوبر 2023 سے جاری غاصب صہیونی جارحیت نے غزہ کو ایک قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ امریکی حمایت سے جاری اس مہم میں اب تک ایک لاکھ چوراسی ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
گیارہ ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیںجبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بھوک، ہسپتالوں کی تباہی، پانی کی کمی اور گولیوں کی مسلسل بارش نے غزہ کو ایک انسانی بحران میں دھکیل دیا ہے۔
اسی پس منظر میں، موریتانیہ کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے قابض صہیونی ریاست کی جارحیت پر گہرے رنج و غصے کا اظہار کیا ہے۔ حکمران جماعت انصاف پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ایران پر حملہ اس کی خودمختاری پر حملہ اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری کارروائی کرے اور اس خطرناک صورتحال کو ختم کرنے کے لیے سیاسی حل کی طرف واپس آئے تاکہ دنیا میں امن بحال ہو سکے۔
دوسری طرف حزب اختلاف کی تواصل پارٹی نے اس حملے کو امت مسلمہ کے عزم، اتحاد اور حقوق سے وابستگی میں اضافے کا باعث قرار دیا اور کہا کہ یہ حملہ نہ صرف وحشیانہ ہے بلکہ خطےکے امن و استحکام کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔